مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متن کا تصور متن سے پہلے پیدا ہوتا ہے،
1- متن کی لامتناہیت و امکانیت کا اِس سے بہت گہرا رشتہ ہے ہمارے ہاں کتاب کو اس درجہ مقدس قرار دے دیا گیا اور یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب واحد کتاب لوگوں کے پاس مقددس کتاب ہوتی تھی، اور کتاب کو مقدس بنانے کی بنیادی وجہ بھی وہی قدِمی لاشعوری ممانعت ہے، جو عام طور پر خیال پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کتابیں تفہیمی و فہیمی طور پر مشکل ہوتی ہیں یا متنی طور پر یا زبانی سطح پر،
یہ بات اس لئے ناقابلِ فہم ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ متن کا تصور متن سے پہلے پیدا ہوتا ہے، منطقی منطقہ یہ ہے کہ کتاب اپنے ساتھ مطالعے کا تقاضا خلقی طور پر لاتی ہے ورنہ متن کا کوئی وجودی تصور نہ ہوتا
2- متن کے امکانات اور سوشل میڈیائی کنڈیشنز متن پڑھنے کی وجوہات متن کے امکانی ہونے سے زیادہ اُس کے چٹ پٹے ہونے پر منحصر ہوتی ہیں یا اُس کے محدود و مختصر ہونے پر، جب کہ متن کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مختصر ہے یا لامحدود ،مگر مختصر ایک کنڈیشن ہے تخلیق کار کے لئے اگر تخلیق پر یہ کنڈیشن لاگو ہو جائے تو اپنی خلاقیت کو بروائے کار تو لاتا رہے گا مگر وہ لامتناہی و لامحدود ہونے کے بجائے محدود ہو گی،
3- محدود متن کی تخلیق کے بنیادی مخرک ریاستی خبری و اشاعتی و اطلاعاتی ادارے ہیں زبان کا عمومی تصور ذہنوں میں لامتناہی ہوتا ہے، ریاستی کنڈیشنز اسے محدود بناتی ہیں، مثلاََ ٹی وی میں آداب کے لئے مختص الفاظ کا بنیادی مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ تمام لوگ اسی طرح آداب کو بروئے کار لائیں
اطلاعاتی تقاریر کے پہلے اور آخری حصے ہمیشہ مستحکم و سلسلاتی ہوتے ہیں
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس منصب کو کلیشے کر دیا جائے تاکہ لوگوں کی ریاست کی سرگرمیوں پر نظر نہ رہے اور وہ کان نہ دھریں بیزاری خلقی ہے متن کے تقاضات کی طرح، دوم یہ متنی صورت میں اخباروں کا حصہ بنتی ہے
اور اس میں زبان کا چناؤ وہ نہیں ہوتا ماسوائے کسی ایک خاص خبر کے جس کے پیسے لئے جاتے ہیں، الغرض متن پڑھانے سے زیادہ متن سنانے کا کام ہوتا ہے
سنانا بھی ایک کنڈیشن ہے جسکی بدولت امکانِ معنی تک نہیں پہنچا جا سکتا
1- اکثریت و اقلیت کو حتمی معنی تک پہنچانے میں سیاسی محرکات کار فرما ہوتے ہیں، متن پر سیاست اثر انداز ہوتی ہے دریدا کا یہ کہنا کہ تمام تر متن سیاسی ہے اس بات کا احاطہ کرتا ہے
اکثریت سے متن کے متعلقہ و غیر متعلقہ معنا اسکی تعداد و شناخت کے باعث محدود ہو جاتے ہیں اکثریت کے معنوی تقاضے خلقی نہیں ہوتے بلکہ سیاسی ہوتے ہیں
اسی طرح اقلیت کی معنوی کھوج منحصر ہوتی ہے اکثریت کے سیاسی تقاضوں کے برعکس، اقلیت کے ہاں تخلیق ہونے والا متن ہمیشہ اسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ وہ نعرہ بن سکے اکثریت کے خلاف اور اکثریت کے ہاں تخلیق ہونے والے متن کا منشا قانون بن جانا ہوتا ہے یا قانون بن جانے کی تراغیب و تراکیب مہیا کر جانا ہوتا ہے،
اس ساری صورتِ حال میں متن میں موجود لامتناہی امکانات محدود ہو کر رہ جاتے ہیں
2- متن کی تخلیق مشاہداتی و مطالعاتی ہونے کے سبب اکثریتی ہوتی ہے براصغیر کی روایت میں المیاتی متن کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہمیشہ اکثریتی ہی رہا ہے اپنے سیاسی و واقعاتی و تہذیبی تناظرات میں مواقع کے تناظر میں تلمیحات بھی اکثریتی وقوع کی نمائندگان ہوتی ہیں ، متن پر عیوب کی پابندیوں کا جائزہ لیں تو وہ بھی اسی نوعیت کی ہیں، خواہ تنافر ہو خواہ ردیفین کا معاملہ ہو خواہ صنائعت و بدائعت کا معاملہ ہو
اس سے متن میں غیر کا صیغہ در آتا ہے اور جس جس متن کے ساتھ غیر لگتا جاتا ہے وہ اقلیتی ہوتا چلا جاتا ہے
3- اقلیتی متن میں اکثریتی متن کی فتوحات کے برعکس مزاحمتی رنگ نمایاں ہوتا ہے،
اور یہ اقلیتی متن کی محدودیت کا باعث بنتا چلا جاتا ہے، اکثریتی متن اگر درست سمت پر بھی گامزن ہو تب بھی اِس سے انحراف محض اِس لئے برتا جاتا ہے کہ وہ خود ایک انحراف کا متاثرہ ہے، اس طرح امکانِ معنی مسطح ہو کر رہ جاتا ہے اور اسکی تہہ میں کوئی جاتا ہی نہیں گہرائیوں کا تصور ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک میڈیاکرانہ متن جگہ بناتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ واقعاتی و موجوداتی متن ہوتا ہے
اور کاونٹر متن ہونے کے سبب مقبول ترین متن بن کر (مزاحمتی پلے کارڈ کی زینت بن جاتا ہے )
جاری ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر