نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زرداری شہباز ملاقات۔۔۔ ملک سراج احمد

مولانا ایک بار پھر سردیوں میں نکل رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ مولانا جیسے زیرک سیاست دان کی نظریں مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن پر ہوں

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف صحافی حامد میر نے ٹوئیٹر پر ایک سوال پوچھا کہ تحریک انصاف کے رہنما آل پارٹیز کانفرنس کے اعلان کو آل پارٹیز کرپشن یونین اور این آر او حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں کیا واقعی اپوزیشن این آر او حاصل کرنا چاہتی ہے اور اے پی سی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا؟ یہ سوال صرف حامد میر کا نہیں ہے بلکہ ان کروڑوں پاکستانیوں کا سوال ہے جو تبدیلی کے ہاتھوں ادھ موئے ہوچکے ہیں۔یہ بھی تو کسی المیے سے کم نہیں ہے کہ پاکستانیوں کو جو حکومت ملی ناتو وہ ڈلیور کررہی ہے اور نا ہی اپوزیشن عوامی امنگوں کی ترجمانی کرپارہی ہے۔بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے ہمالیہ تلے سسکتی عوام کے لیے محض فوٹوسیشن اور بیانات کیا ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکتے ہیں۔اگر اپوزیشن کے بیانات سچ پر مبنی ہیں کہ حکومت نااہل ہے اور ملکی معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے تو پھر اپوزیشن حکومت کے خلاف کوئی تحریک کیوں شروع نہیں کررہی اور اگر حکومت سچ بول رہی ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں جارہی ہے تو اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے۔حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے اور وہ کون ہے اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نوازشریف کو دس ستمبر کو طلب کرلیا۔پیش نا ہونے کی صورت میں مفرور قرار دے کر ان کی ساری جائیداد ضبط کی جاسکتی ہے۔توکیا میاں نواز شریف سرینڈر کردیں گے۔اگر سرینڈر کردیا اور عدالت میں پیش ہوگئے تو یہ بات حکومت کے لیے زیادہ پریشان کن ہوسکتی ہے۔شاید حکومت کی دل کی مراد بھی یہی ہو کہ میاں نواز شریف سرینڈر نا کریں۔تاہم دس ستمبر کو عدالت کے ممکنہ فیصلے کے پیش نظر قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن شہبازشریف کراچی یاترا کے دوران بلاول ہاوس پہنچ گئے۔سندھی میزبانوں کے پرتپاک استقبال اور پرتکلف کھانے کے باوجود شہاز شریف گومگو کی کیفیت سے باہر نا نکل سکے اور صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ اے پی سی میں مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا۔

میڈٰیا زرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے شہباز شریف کو ان ہاوس تبدیلی کا مشورہ دیا۔جس پر شہبازشریف کا جواب تھا کہ عمران خان کی حکومت کو مزید چلتے رہنا چاہیے اور یہ حکومت جتنی دیر قائم رہے گی اتنی ہی بدنام ہوگی اور بالآخر اپنے بوجھ سے خود گرے گی۔سیاسی حکمت عملی کے تحت تو یہ شاید ٹھیک ہو مگر عوام کا کیا ہوگا اور اس ضمن میں اپوزیشن رہنماوں کا سوچنا ہوگا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اے پی سی میں حکومت کے خاتمے ، اس کے طریقہ کار کو باہمی اتفاق رائے سے حتمی شکل دی جائے گی۔سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا اپوزیشن اے پی سی میں حکومت کے خلاف کوئی متفقہ موثر لائحہ عمل طے کرسکے گی؟

اس ملاقات میں طے ہوا کہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرے گی۔جبکہ مولانا بھی مکمل تیاری میں ہیں اور سات ستمبر کو پشاور میں ایک کنونشن کرنے جارہے ہیں اور اسی ماہ کے آخر میں وہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ چترال میں کریں گے اس کے بعد شنید ہے کہ وہ بلوچستان کا رخ کریں۔تاہم یہ سوال بنتا ہے کہ مولانا ایک بار پھر سردیوں کی ابتدا میں کیوں نکل رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان کی نظریں مارچ میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن پر ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ اس الیکشن کے قبل کوئی سیاسی تبدیلی لائی جائے۔اور اس ضمن میں مولانا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشن پر بھی غور کررہے ہیں۔کیا پیپلزپارٹٰ اور ن لیگ اسمبلیوں سے استعفیٰ کے آپشن پر اتفاق کریں گے۔اگر اپوزیشن ان ہاوس تبدیلی کی طرف نہیں جاتی اور اسمبلیوں سے مستعفی بھی نہیں ہوتی تو پھر اس کمپرومائزڈ اپوزیشن سے کوئی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔

اسی ہڑبونگ میں ایک بار پھر صدارتی ریفرینڈم کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔یہ بات شاید اس لیئے بھی تواتر کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوگئی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ریفرنڈم کرانا بھی آسان نہیں رہا اور ریفرنڈم کے لیے شرط ہے کہ دونوں ایوان قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ریفرنڈم کی قرار داد پیش کی جائے اور مشترکہ ایوان سے اس کی کامیابی کے بعد ریفرنڈم کا انعقاد ہوسکے گا اور یہ مارچ کے سینٹ کے الیکشن کے بعد ہی ممکن ہے۔اگر سینٹ کے الیکشن ہوگئے تو لازمی بات ہے کہ سینٹ میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوجائے گی پھر وہ شاید ریفرنڈم کرانے میں کامیاب ہوسکے ۔

27اگست کو صحافی احمد نورانی کی جانب سے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں سی پیک اتھارٹی کے چیرپرسن عاصم سلیم باجوہ کے خاندانی کاروباری معاملات پر بات کی گئی۔اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد محتاط انداز میں لوگ ردعمل دینے لگے۔تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس پر کھل کربات ہونے لگی او ربالآخر عاصم سلیم باجوہ نے چار صفحات پر مشتمل تردیدی بیان جاری کردیا۔اور اس کے ساتھ ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا۔بظاہریہی لگ رہا ہے کہ اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے اور اب مزید سوالات ہوں گے اور شاید اتنے سوالوں کے جواب دینا عاصم سلیم باجوہ کے لیے ممکن نا ہو اس لیے شایداُن کے ایک استعفیٰ سے کام نہیں چلے گا۔اس ضمن میں جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ کہا جارہا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ پر الزامات بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے ، اگر یہ بین الاقوامی سازش ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اصل حقائق کیا ہیں؟

About The Author