آئین پاکستان کے مطابق پاکستان کی پارلیمان کے زیریں ہاؤس قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔ یقیناً اس قانون سازی کے پیچھے بہت سے قابل دماغ موجود ہوں گے جنہوں نے بہت سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پانچ سال کی مدت کا تعین کیا ہو گا۔ برطانوی راج کے زیر تسلط رہنے والے زیادہ تر ممالک میں پارلیمان کی مدت پانچ سال ہی مقرر ہے۔ اس لئے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ شائد یہ چیز بھی ملحوظ خاطر رہی ہو۔ اس تحریر کا مقصد پانچ سالہ پارلیمانی مدت کا تنقیدی جائزہ لینا ہے کہ اگر پانچ سالہ مدت کو چار سال کر دیا جائے تو اس سے ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور کیسے جمہوری نظام کو مضبوط اور مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
آزادی سے لے کر آج تک ہمارے ہاں جمہوری نظام کو بہت سے چیلنجر درپیش رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو ہمارے جمہوری ادارے مضبوط ہو سکے اور نہ ہی جمہوری کلچر صحیح معنوں میں پروان چڑھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ہمارے انتخابات ہمیشہ دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے ہیں بلکہ ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیاں بھی ہمیشہ ہچکولوں کی زد میں رہی ہیں اور بہت ساری اسمبلیاں اپنی پارلیمانی مدت بھی مکمل نہیں کر سکیں اور دو تین سال بعد ہی ان کو رخصت کر دیا گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس میں تھوڑا استحکام ضرور آیا ہے اور پچھلی دو اسمبلیوں نے جمہوری طریقے سے اپنی مدت پوری کی ہے۔ غیر شفاف انتخابات اور جمہوری رویوں کے فقدان کے باعث ہوتا یہ ہے کہ حکومت کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی اس حکومت کو ہٹانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ غیر شفاف انتخابات کے ساتھ ساتھ پانچ سالہ لمبی پارلیمانی مدت بھی ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک بے صبری قوم ہیں اس لئے پانچ سالہ مدت ہمارے لئے شائد تھوڑی زیادہ ہے اور یہی چیز حکومتوں کے خلاف دھرنوں اور دوسرے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا باعث بنتی ہے کہ کسی طرح پانچ سال سے پہلے ناپسندیدہ حکومت سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ دوسری طرف اکثر حکومتیں بھی پانچ سال کو ایک لمبی مدت گردانتے ہوئے پہلے دو تین سال کو ہنی مون پیریڈ سمجھتے ہوئے گزار دیتی ہیں اور بجائے اپنے منشور پر عمل کرنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے ہر مسئلے اور خرابی کا ذمہ پچھلی حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔
پارلیمانی مدت چار سال کر دینے سے ہمارے جمہوری نظام میں موجود بہت سی خرابیوں کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سب سے پہلے تو حکومتوں کو معلوم ہو گا کہ ان کے پاس صرف چار سال ہیں جس میں انہیں اپنے منشور پر عمل کرنا ہے، اپنے منصوبوں کو مکمل کرنا ہے اس لئے حلف اٹھاتے ہی بغیر کوئی وقت ضائع کئے کام شروع کرنا پڑے گا اور پہلے دو تین سال ہنی مون پیریڈ کے نام پر ضائع نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن کو بھی ناپسندیدہ حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے ایک سال کم انتظار کرنا پڑے گا اور اس طرح اپوزیشن اپنی توانائی دھرنوں اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر صرف کرنے کی بجائے اپنی توجہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر جمہوری انداز میں تنقید پر مرکوز رکھے گی۔ اس سے نہ صرف کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے متعارف کردہ دھرنوں کے غلط قسم کے سیاسی کلچر سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ جمہوری رویہ پروان چڑھے گا اور جمہوری نظام میں مضبوطی آئے گی۔
چار سالہ پارلیمانی مدت کوئی انہونی بات نہیں دنیا کے بہت سارے ممالک میں پارلیمان اور حکومت کی مدت چار سال ہی ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ایلسلواڈور، فلپائن اور میکسیکو کے علاوہ کئی دوسرے ممالک میں تو تین سالہ پارلیمانی مدت بھی کامیابی سے چل رہی ہے۔ پارلیمانی مدت کم کر کے چار سال کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ عوام کو ناپسندیدہ یا نااہل حکومت کو ووٹ کے ذریعے ہٹانے کے لئے کم انتظار کرنا پڑے گا. دوسری طرف اگر کوئی حکومت اپنی چار سالہ مدت اقتدار میں عوام کی امیدوں پر پورا اترتی ہے تو وہ چار سال بعد عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کے بعد پھر برسر اقتدار آ سکتی ہے۔
پارلیمان کی مدت چار سال کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات کے عمل کو بھی شفاف اور سہل بنانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام جماعتوں کی مشاورت سے انقلابی قسم کی انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ ضرورت صحیح معنوں میں ایک آزادانہ الیکشن کمیشن کی ہے جو آزادانہ طور پر اپنا کام کر سکے اور کوئی طاقتور ترین ادارہ بھی الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت کر کے اپنے من پسند نتائج حاصل نہ کر سکے اور صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کی نمائندہ حکومتوں کا قیام عمل میں آ سکے۔
فلور کراسنگ کے قوانین کو بھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والا رکن اسمبلی فارورڈ بلاک بنا کر دوسری پارٹی کی حمایت نہ کر سکے۔ اس کے لئے پارلیمان میں ہونے والی ہر قسم کی ووٹنگ شو آف ہینڈز کے ذریعے کرائی جائے تاکہ فلور کراسنگ کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ اگر کسی رکن اسمبلی کو اپنی پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی سیٹ سے استعفی دے اور دوبارہ انتخاب میں حصہ لے کر واپس آ جائے۔
پارلیمانی مدت میں تبدیلی سے بھی زیادہ ضروری چیز جمہوری نظام کا تسلسل ہے۔ اگر جمہوری نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دیا جائے تو اس نظام میں اتنی طاقت موجود ہے کہ یہ اپنی خرابیوں کو وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی درست کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پارلیمان کو مدت پوری کرنے دی جائے اور صاف شفاف منصفانہ انتخابات مقررہ وقت پر منعقد ہوتے رہیں تو عوام کی امیدوں پر پورا نہ اترنے والی سیاسی جماعتیں اور اراکین خودبخود جمہوری طریقے سے سسٹم باہر ہو جائیں گے۔
اگر کوئی حکومت اپنی چار سالہ مدت اقتدار میں عوام کی امیدوں پر پورا اترتی ہے تو وہ چار سال بعد عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کے بعد پھر برسر اقتدار آ سکتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر