مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راحت اندوری اور ہماری اقلیتیں۔۔۔رانا محبوب اختر

پورے خطے میں کورونا کے ساتھ ساتھ،نفرت ، ہجومی دہشت ، انسان دشمنی، غربت اور تنگ نظری کی وباء عام ہے۔دھوپ بہت ہے۔

راحت اندوری اور ارون دتی رائے جیسے لوگ ہندوستان کا ضمیر ہیں۔گیارہ اگست 2020کو وفات پانے والے راحت اندوری کی وفات سے بھارت غریب تر ہو گیا ہے۔غالب کو وبائے عام میں مرنا پسند نہ تھا، راحت عام آدمی کے شاعر تھے اور وبائے عام میں مر گئے۔وہ اردو کے پروفیسر اور مشاعرے کے شاعر تھے۔اندور کے راحت نغمہ گر تھے اور فلمی گیت بھی لکھتے تھے۔اندور، مدھیہ پردیش کا تاریخی اور ثقافتی شہر ہے۔بھوپال سے 190کلومیٹر دور یہ خوب صورت شہر راحت کی جنم بھومی ہے۔ اس شہر کا صرافہ بازار مشہور ہے۔صرافہ بازار میں مگر سونا نہیں، کھانا بکتا ہے۔ہم لڑکپن سے اندور کو استاد امیر خاں کی وجہ سے جانتے ہیں۔امیر خاں سر اٹھاتے تھے۔وہ ترانہ اور خیال کے کلاسیکل گائیگ تھے۔”بیجو باورا”، "شباب” اور "جھنک جھنک پائل باجے” جیسی یادگار فلموں میں ان کا فن جھلکتا ہے۔راحت اندوری کی موت پر ان کی گائی ہوئی غالب کی غزل ہم نے نم دیدہ آنکھوں سے سنی:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، ہم زباں کوئی نہ ہو

برصغیر میں ہمسایہ دشمنی کا چلن عام ہے ویسے کوئی بھی ہو ہمسائے کو دوسرا گال پیش نہیں کرتا اور ہم تو خیر ہمسائیگی کے آداب کے بڑے دقیقہ شناس ہیں۔ایسے میں اک بے درودیوار سے گھر کی خواہش غالب نے کی تھی :

بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

مشرف علی ذوقی نے راحت اندوری کو غزل کا حبیب جالب لکھا ہے۔ حبیب جالب نظموں میں انقلاب بھرتے تھے، راحت اندوری غزل میں محبت کے انقلابی کو پیغام کو شعر کرتے تھے۔2019میں بھارتی پارلیمنٹ میں کانگرس کی رکن ترینا مول نے نریندرا مودی سرکار کی سرپرستی میں ہونے والے mob violence کے حوالے سے راحت کے یہ اشعار پڑھے تھے:

جو آج صاحب ِمسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
دیکھتے ہی دیکھتے یہ اشعار نریندرا مودی ہندوستان میں بنیاد پرستی اور ہندوتوا کے خلاف مزاحمتی تحریک کا نعرہ بن گئے تھے۔جیسے پاکستان میں جالب کی نظم، ایسے دستور کو، صبح ِبے نور کو میں نہیں مانتا، مزاحمتیوں کا ترانہ بن گئی تھی۔لیکن دوئی کے مارے ہم، جالب کو ناپسند اور راحت کو پسند کرتے ہیں۔ارون دتی رائے مسلمانوں، اقلیتوں اور کشمیریوں کے حق میں بولے تو ہیر اور ہیرو ہے۔مملکت ِخدا داد میں کوئی اقلیتوں اور مظلوم قومیتوں کے حق میں بولے تو کیدو ہے!راحت اندوری کی مقبولیت اس منافقت کا پردہ چاک کرتی تھی۔ مشاعرے میں ان کی موجودگی میں کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ ان کے انداز و ادا اور آواز کی کھنک کے سامنے سب کچھ ماند تھا۔ان کا شعر پڑھنے کا انداز جدا گانہ اور inimitableتھا۔ وہ عوامی نفسیات کو سمجھتے تھے اور لوگوں کے دل کی بات کرتے تھے۔راحت کے دل سے نکلی بات سامعین کے دل میں اترنے کی لذت عجب تھی۔ شاعری اور سیاست کے ملاپ کی کرامت، راحت اندوری کا کمال تھا۔وہ مقامِ اتصال جہاں سیاست کا کاروبار اور شاعری کی جادو گری ایک ہو جاتے ہیں۔ذولفقار_ علی بھٹو کی سیاست یہی کرامت تھی کہ وہ سیاست میں شاعری کرتے تھے۔ان کا قول ہے کہ سیاست کے لئے آدمی کے سینے میں شاعری کا لمس ضروری ہے۔پھر چشم ِفلک نے دیکھا کہ بھٹو کو پھانسی ہوگئی مگر تخت والے تختے والے سے ہار گئے۔عوام کا نام جپنے والے بھٹو کا نام عوام جپتے ہیں۔بھٹو بڑے سیاسی رہنما تھے، ان سے غلطیاں بھی ہوئیں مگر اس خطے کی سیاست میں غریب کے خوابوں کو زبان دینے والے وہ پہلے سیاست دان تھے:
وہ جس نے اس کو لحد میں رکھ کے ، لحد کے منہ پر چٹان رکھ دی
وہ یاد رکھے کہ اس نے گونگی زمیں کے منہ میں زبان رکھ دی

راحت اندوری کی شاعری کی کرامت یہ ہے کہ وہ عام فہم انداز میں عوام کی بات کرتے ہیں۔چند منتخب اشعار دیکھئے کہ یہ ان کے سیاسی شعور اور عوامی انداز کے آئینہ دار ہیں:

اسے سامان ِسفر جان یہ جگنو رکھ لے
راہ میں تیرگی ہوگی مرے آنسو رکھ لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز تاروں کی نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے جو توڑ دیئے خواب ہم ان کے بدلے
کوئی قیمت کبھی لیتے تو خدائی لیتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ منزل تھی مگر خوف و خطر ایسا تھا
عمر بھر چلتے رہے لوگ سفر ایسا تھا

کچھ شعر اتنے سادہ اور نازک ہوتے ہیں کہ روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بن کر امر ہو جاتے ہیں۔بھرتری ہری کا شعر پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتا ہے تو شعیب بن عزیز کا شعر ، اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں/اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں، ہمارے عہد کا مقبول ترین شعر رہا ہے ۔اس موضوع پر راحت اندوری نے کیا عمدہ کہا ہے مگر اس شعر کو مقبولیت کا وہ مقام نہیں مل سکا:

برف کی طرح دسمبر کا سفر ہوتا ہے
ہم اسے ساتھ نہ لیتے تو رضائی لیتے

راحت اندوری کی مطبوعہ کتابوں میں "رت”، "میرے بعد”، "دھوپ بہت ہے”، "چاند پاگل ہے”، "موجود” اور "ناراض” شامل ہیں۔ راحت اندوری کی وفات سے برِصغیر غریب تر ہو گیا اور قحط الرجال بڑھ گیا ہے۔

پورے خطے میں کورونا کے ساتھ ساتھ،نفرت ، ہجومی دہشت ، انسان دشمنی، غربت اور تنگ نظری کی وباء عام ہے۔دھوپ بہت ہے۔اندور کے راحت کی موت سے یہ دھوپ گہری ہو جائے گی۔ہندوستان میں راحت اندوری کے حیران کن ہم عصر،منور رانا کا سلامت رہیں کہ ان کا دم غنیمت ہے۔کربلا کے حوالے سے منور رانا کا ایک شعر دیکھئے:

پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا
ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے
دو سال پہلے گیارہ اگست کو ایک المیہ شمیم عارف قریشی کی موت کی صورت ہوا۔جب ایک دوست اور نازک مزاج شاعر نے دنیا سے منہ موڑ لیا تھا۔راحت اندوری کی موت نے ان کی موت کا گھاو گہرا کر دیا ہے۔شمیم عارف کا شعر مگر موت کی تلخی کو ذرا کم کرتا ہے:
نام تیڈے کوں کافی کیتا جگ وچ گاندے رہسوں
اساں ملوہا درشن کیتے ول ول آندے رہسوں
شمیم کا ملوہا، ملتان اور راحت کا ملوہا، اندور ہے۔دونوں اپنی مزاحمتی ، عوامی، مدنی اور تمدنی شناخت کے ساتھ زندہ رہیں گے اور ہمارے دلوں میں آباد رہیں گے۔راحت اندوری ہمارے لئے ایک ابدی سچائی کو شعر کرتے ہیں:
میں آخر کون سا موسم تمھارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی عادت ہے

%d bloggers like this: