نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اداروں کی ’’خاموش مداخلت‘‘ کی ضرورت۔۔۔نصرت جاوید

بالآخر چھ اہم ترین قوانین دونوں ایوانوں سے بخیروبخوبی منظور ہوگئے۔اب ’’گوٹ‘‘ منی لانڈرنگ سے متعلق قانون میں چند نئی ترامیم ڈالنے کے معاملے پر اٹک گئی ہے۔

چند دوستوں کے دِلوں میں کانٹے کی طرح میں اس حماقت کا مسلسل ارتکاب کرنے کی وجہ سے بھی کھٹکتا ہوں کہ پاکستان کو ممکنہ طورپر درپیش آنے والے مسائل کی بابت وقت سے پہلے دہائی مچانا شروع کردیتا ہوں۔دورِ حاضرکا تقاضہ اگرچہ یہ ہے کہ صحافی ’’اپنی اوقات‘‘ میں رہے۔ ’’لفافہ‘‘ جائے تو سو بسم اللہ ورنہ سرجھکائے ’’چپ کر دڑوٹ جا‘‘والا رویہ اپنائے رکھے۔ اس رویے کو نہایت خلوص سے کئی برسوں سے اختیار کرنے کی لگن میں مبتلا ہوں۔کبھی کبھار مگر کم بخت ’’ضمیر‘‘ پریشان کردیتا ہے۔پاکستان کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں ایسی ہی پریشانی کا سامنا رہا۔ہماری صحافت پر جب ’’پانامہ۔ پانامہ‘‘ کا جنون طاری تھا تو اس کالم میں مذکورہ ادارے کا ’’تعارف‘‘ کروایا۔ اس کی اہمیت کو ہماری معیشت کے تناظر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ میری شدید خواہش تھی کہ اندھی نفرت وعقیدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ضمن میں مناسب سوچ بچار کے بعد ٹھو س حکمت عملی تیار کریں۔ اس حکمت عملی پر یکسو ہو کر ڈٹ جائیں۔ میری فریاد مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔

پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گزشتہ کئی مہینوں سے اپنی گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ہمیں اس لسٹ کی جانب دھکیلنے والے ممالک ہمارے ازلی دشمن بھارت کی کاوشوں سے ہمیں اب ’’بلیک‘‘ میں ڈلوانا چاہ رہے ہیں۔ایسا ہوگیا تو پاکستان ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔ان دونوں ممالک کو عالمی تجارت کے حوالے سے بلیک لسٹ میں ہونے کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ان کی بنائی مصنوعات خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔کسی نہ کسی طرح سے کوئی اسے خرید بھی لے تو مناسب دام نہیں ملتے۔ادائیگی روایتی بینکوں کے ذریعے ہونے کے بجائے چوری چھپے’’نقدی‘‘ کی صورت ہوتی ہے۔ہماری معیشت ایسی مشکلات کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف اپنی تسلی کے لئے پاکستان سے جن قوانین کا تقاضہ کررہی ہے انہیں جلد از جلد پارلیمان سے منظور کرواتے ہوئے ہم اپنی’’جند‘‘ چھڑانے کا بندوبست کریں۔ہمارا مسئلہ مگر یہ ہوگیا ہے کہ عمران حکومت کے کئی ’’نابغوں‘‘ نے FATFکی تسلی کے لئے چند ایسے قوانین بھی تیار کرلئے جن کا اصل مقصدTerror Financingیعنی دہشت گردی کی سرمایہ کاری کو روکنا نہیں بلکہ حزب مخالف کے چند رہ نمائوں کو ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے بہانے سیاسی منظر سے غائب کرنا ہے۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوںپاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے جب اس کے بارے میں اعتراضات اٹھائے تو تاثر یہ پھیلایا گیا کہ ’’زرداری اور شریف خاندان کے غلام‘‘ درحقیقت اپنے قائدین کے لئے NROکے طلب گار ہیں۔’’کپتان‘‘ مگر ڈٹ چکا ہے۔عمران خان صاحب کی سیاست کا ’’کلیدی ایجنڈا‘‘ کرپشن کا خاتمہ رہا ہے۔وہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو معاف نہیں کرسکتے۔ اپوزیشن کو FATFکی تسلی کیلئے بنائے قوانین کو ہوبہوان ہی الفاظ واصطلاحات سمیت منظور کروانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا جو عمران حکومت کے لئے قوانین بنانے والے ’’نابغوں‘‘ نے استعمال کئے ہیں۔حزب مخالف کے عدم تعاون کے باعث اگر یہ قوانین منظور نہ ہوئے ۔پاکستان اس کی وجہ سے بلیک لسٹ میں چلا گیا تو حکومت اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔’’زرداری اور شریف خاندان کے غلام‘‘اس کے حقیقی ذمہ دار ہوں گے۔اپنی بات پر ڈٹ جانے کی وجہ سے عمران حکومت کے چند ’’نابغے‘‘ پاکستان کے لئے ممکنہ طورپر جو مشکلات کھڑی کرسکتے تھے اس کا ہماری قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے بروقت ادراک کیا۔خواجہ آصف نے پیر کی شام قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر برملا اس امر کا اعتراف کیا کہ مذکورہ اداروں نے پسِ پردہ رہتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو اس امر پر قائل کیا کہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطلوبہ قوانین پارلیمان سے منظور کروانے کی خاطر کوئی درمیانی راہ نکالیں۔اس راہ کو ڈھونڈنے کے لئے قومی اسمبلی کے سپیکر کے سرکاری گھر میں رات گئے تک طویل اجلاس ہوتے رہے۔ بالآخر چھ اہم ترین قوانین دونوں ایوانوں سے بخیروبخوبی منظور ہوگئے۔اب ’’گوٹ‘‘ منی لانڈرنگ سے متعلق قانون میں چند نئی ترامیم ڈالنے کے معاملے پر اٹک گئی ہے۔

پیر کی شام عمران حکومت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مذکورہ ترامیم قومی اسمبلی سے منظور کروالیں۔ اصولی طورپر جب کوئی قانون قومی اسمبلی سے منظور ہوجاتا ہے تو اسے سینٹ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھیجنے کے بعد دوروز تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔اس روایت کے پیچھے یہ حکمت کارفرما ہے کہ ایوانِ بالا کے اراکین کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئے قانون پر غور کے لئے مناسب وقت مل جائے۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوکہ منظور شدہ قانون کو ہوبہو منظور کرلیا جائے یا اس کی نوک پلک درست کرنے کو مزید ترامیم متعارف کروائی جائیں۔ ’’ہنگامی صورتِ حال‘‘ میں اس روایت کو نظرانداز کرنے کے طریقے بھی آئین اور قانون میں موجود ہیں۔عمران حکومت کو ایوانِ بالا میں مگر سادہ ا کثریت بھی میسر نہیں۔ ’’ہنگامی صورت حال‘‘ اس سے لہٰذا لچک کا تقاضا کرتی ہے۔اس حکومت کے چند ’’نابغے‘‘ مگر بضد ہیں کہ اگر انہوں نے ’’کرپشن اور منی لانڈرنگ‘‘ کے معاملے پر کوئی لچک دکھائی تو عمران خان صاحب کے مداحین حکومت سے خفا ہوجائیں گے۔ یہ سوچنے کو مجبور ہوجائیں گے کہ ’’کپتان‘‘ نے اپنی حکومت بچانے کی خاطر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’بخش‘‘ دیا۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے حامی بھی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے طعنوں سے اب اُکتاچکے ہیں۔’’زرداری اور شریف خاندان کی غلامی‘‘ کی تہمت بھی ان کی انا کو مسلسل مجروح کررہی ہے۔اس تہمت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کے قائدین اگر انہیں عمران حکومت کے بنائے چند قوانین کو سرجھکاتے ہوئے ’’انگوٹھے‘‘ لگاکر منظور کرنے کے حکم صادر فرماتے رہے تو ان کی صفوں میں ’’بغاوت‘‘ کسی بھی وقت پھوٹ سکتی ہے۔مثال کے طورپر رضا ربانی جیسے افراد کب تک ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے وہ طعنے برداشت کرتے رہیں جو مذہبی سیاسی جماعتوں اور قوم پرستوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں کھڑے ہوکر ’’مک مکا‘‘ کے نام پر مسلسل دینا شروع کردئیے ہیں۔عمران حکومت کے ’’نابغوں‘‘ کو مگر یقین کی حد تک گماں ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی جتنی بھی تذلیل کرتے رہیں ’’زرداری اور شریف خاندان کے غلام‘‘ خود کو ’’ذمہ دار اور محب وطن‘‘ ثابت کرنے کی خاطر ان کی حکومت کے بنائے قوانین کو منظور کرتے رہیں گے۔ منگل کی شام ان کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہیے تھی۔ قومی اسمبلی سے منی لانڈرنگ والے قانون میں متعارف ہوئی ترامیم سینٹ سے منظوری کے لئے پیش ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے جواں سال رہ نما مصطفیٰ نواز کھوکھر اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے۔ وہ عموماََ نرم گو اور خاموش طبع آدمی ہیں۔منگل کی شام مگر سینٹ میں قائدِ ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد کی ایک حقارت بھری تقریر یاد دلانے کو مجبور ہوگئے۔ان سے معذرت کا تقاضہ کیا۔ بجائے معذرت کے وسیم شہزاد اپنے ’’ایک ایک لفظ‘‘ پر ڈٹ گئے۔ ان کا ساتھ دیتے ہوئے تحریک انصاف کے پرجوش سینیٹر فیصل جاوید نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو بلکہ ’’بے بی بلاول‘‘ کہا۔اس کے بعد جو ہوااس کی بابت حیران ہونے کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author