نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندوستان کے حکمران اور مسئلہ کشمیر۔۔۔ ظہوردھریجہ

کشمیر کا مسئلہ ہر صورت حل کرنا ہو گا۔ پاکستان کے اہل دانش امریکا سمیت پوری دنیا کے ضمیر کو جنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے نئے فیصلے کے تحت پیدا ہونیوالی صورتحال نے کشمیر کے مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ کہاوت بن چکی ہے کہ کبھی نہ حل ہونے والا جو بھی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘ نسل کشی کی بجائے کشمیریوں کو ان کا وطن ملنا چاہئے ۔ ہندوستان کے حکمران دن رات کشمیر کے مسئلے کو بگاڑنے میں مصروف ہیں ۔

دوسری طرف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ احتجاجیوں پر ظلم تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو قتل بھی کیا جا رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ آج پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر کشمیری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کب حل ہوگا ؟

کشمیریوں کی تین نسلیں اسی آس میں ختم ہو گئیں کہ کشمیر آزاد ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے آزادی کی نعمت کو دیکھیں مگر کشمیرکا مسئلہ روز بروز بگڑتا جا رہا ہے‘ جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ کی ضرورت ہے کہ خدانخواستہ کشمیر کے مسئلے پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو یہ پوری دنیا کیلئے مہلک ہوگی ۔

کشمیر کا مسئلہ ہر صورت حل کرنا ہو گا۔ پاکستان کے اہل دانش امریکا سمیت پوری دنیا کے ضمیر کو جنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق بارے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہیں تو امریکا اس کا نوٹس لیتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا کو خوب معلوم ہو چکا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور مسلسل کرفیو کے باعث یہاں انسانی صورتحال طاری ہے ، اس کیفیت میں بھارت سرکار کی سرکوبی اور اس پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عمل خود امریکی کردار کے آگے بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے ۔

ایک جانب امریکی صدر کشمیر پر ثالثی کے خواہاں ہیں تو دوسری جانب وہ اپنا وزن بھارت کے ساتھ ڈال کر پاکستان کو پیغام دے چکے ہیں کہ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جانی چاہئے لیکن انہیں یہ مت بھولنا چاہئے کہ اس طرح سے کشمیر کا مسئلہ دبنے والا نہیں کیونکہ اگر حکومتیں مصلحت کا شکار ہو کر بھارت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہتیں تو دنیا کی رائے عامہ میں یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ بھارت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ قائم کر کے کشمیریوں کی آواز کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے اور کشمیر بد ترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے ۔عالمی برادری کو ہر صورت کشمیر کے مسئلے پر ایکشن لینا ہوگا۔ خصوصاً مسلم امہ اس بارے خاموش نہ رہے کہ جو وقت کشمیریوں کا ہے ‘ وہ سب پر آ سکتا ہے۔اب میں تھوڑا ذکر کروں گا ڈیرہ اسماعیل خان کے وزٹ کا جو گزشتہ دنوں ہوا۔

ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان جا رہے تھے ، بھکر میں سرائیکی رہنما ملک غلام نبی بھیڈوال نے ظہرانے کا اہتمام کیا ۔ بھکر میں معروف دانشور ملک مظفر خان سے میں نے تبدیلی کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کچھ نہیں بدلا ، ماسوا عام آدمی کی مشکلات کے ۔

انہوں نے بتایا کہ سیاسی لحاظ سے بھکر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھکرکے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ خوبصورت اشعار خصوصاً سرائیکی اشعار سے بھکر کا تعارف کراتے رہتے ہیںاور پارٹی موقف سے ہٹ کر انہوں نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی صوبے کا مطالبہ کیا ۔ وہ بتا رہے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس افسر اصغر خان نوانی المعروف ہلاکو خان کا تعلق بھی بھکر سے تھا اور چوہدری ظہور الٰہی قتل کیس میں سزائے موت پانے والے رزاق جھرنا کا تعلق بھی بھکر سے تھا چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم اور میاں شہباز شریف بھکر کی سیٹ سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔

تھل ڈویژن ، تھل موٹر وے اور بھکر میڈیکل کالج کے قیام کے وعدے ہوئے ۔ مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ملتان سے میرے ساتھی حاجی عید احمد دھریجہ ، زبیر دھریجہ کے علاوہ بھکر کے دوست محمد خان مچھرانی اور ڈاکٹر نواز بھٹی شریک سفر ہوئے ۔گاڑی دریائے سندھ کے پل پر پہنچی۔ ایک طرف پنجاب کی پولیس چوکی پر ’’ خدا حافظ پنجاب ‘‘ اور دریا کی دوسری طرف ’’ خوش آمدید خیبرپختونخواہ ‘‘ لکھا ہوا تھا ۔ ضرورت سے زیادہ چیکنگ ، پوچھ گچھ پر میں نے کہا کہ ہم جہاں کھڑے ہیں نہ یہ پنجاب ہے نہ خیبرپختونخواہ۔ دریا کے دونوں طرف وسیب ہے اور دونوں طرف کی تہذیب، ثقافت ، زبان اور جغرافیہ ایک ہی ہے اور یہ رنجیت سنگھ و انگریز سامراج سے پہلے نہ تو اس وقت کے صوبہ لاہور کا حصہ تھا اور نہ صوبہ پشاور کا ، ڈی آئی خان ،ٹانک ، بنوں وغیرہ صوبہ ملتان سے ہی منسلک تھے ۔

جبکہ فاٹا ، افغانستان والوں نے جہاد افغانستان کے بعد مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ، ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اب تھوڑا تذکرہ ڈیرہ کے پس منظر کے حوالے سے کروں گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کم و بیش پانچ سو سال پرانی ہے۔ سردار سہراب خان جو ایران سے نقل مکانی کر کے آئے تھے نے اسے آباد کیا تھا اور اپنے مرحوم بیٹے کے نام سے اسے ’’ڈیرہ اسماعیل خان ‘‘ کا نام دیا ۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ خطے کا خوبصورت شہر ہے۔ اسے ’’ ڈیرہ پھلاں دا سہرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مطابق 1823ء میں دریائے سندھ نے رخ بدلا تو پورا شہر دریا بُرد ہو گیا ۔ڈیرہ اسماعیل خان کے ’’ بھلے مانس‘‘ نواب احمد یار خان نے نئے شہر کی بنیاد رکھی اور بلا رنگ نسل و مذہب سب انسانوں کو دریا برد ہونے والی زمینوں کے بدلے زمینیں اور گھر بنا کر دیئے۔ ڈیرہ ایک بار پھر آباد ہو گیا ۔ شہر کو آئندہ سیلابوں سے بچانے کیلئے ایک طویل حفاظت بند جسے سرائیکی میں بچا بند کہتے ہیں1931ء میں انگریز کمپنی گیمن نے بنایا ۔حفاظتی بند کا پتھر پہنچانے کیلئے بنوں سے براستہ لکی ڈیرہ اسماعیل خان تک ریلوے لائن بچھائی گئی ، جو 1990 کی دہائی میں ختم کر دی گئی۔ سی پیک منصوبے میں ڈی آئی خان ریلوے منصوبہ شامل تھا ،جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

About The Author