ہم حیران ہوئے جب ایک بیسویں گریڈ میں ترقی پانے والے سی ایس پی آفیسر نے کہا میں استعفیٰ دے کر سیاسی میدان میں اترنا چاہتا ہوں۔تجسس یہ تھا کہ گریڈ بیس ملنے پر تو سول سرونٹ کی معاشی و سماجی کمر سیدھی ہوتی ہےکوئی چار آنے تنخواہ بڑھتی ہے پھر خیال آیا کہ بابو نے لمبے ہاتھ شام ڈھلنے سے قبل ہی مارلئے ہوں گے کہ کون بالوں میں چاندی اترنے کا انتظار کرے یا پھر خاندانی کاروبار سیاست ہوگا مگر وہ بھی نہیں۔ بات آگے بڑھی تو کہنے لگے کہ میں الیکشن کی کشش یا کسی وزارت کی رفاقت کیلئے عملی سیاست میں نہیں آنا چا ہتا اور نہ کوئی پارٹی عہدہ ہی میری تمنا ہے۔ عرض کیا پھر چاہتے کیا ہیں؟ کہنے لگے میں جمہوریت چاہتا ہوں ،چاہتا ہوں اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کروں، خواص و عوام کیلئے سودمند پالیسیاں بغیر کسی حرص و ہوس سے متشکل کروں گا۔ میں یہ سمجھا کہ یقیناً یہ براہ راست کسی مشیری یا معاون خصوصی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ مگر ایسا بھی نہ تھا۔صاحب کے نزدیک این جی اوز کا ماڈل بھی نہیں تھا دراصل وہ تدبر’’ ربط‘‘ فصاحت و بلاغت، گفت و شنید اور منصوبہ سازیوں کو سامنے لاکر بادشاہوں اور بادشاہ گروں کی ذہن سازی کے درپے ہیں!
نہیں معلوم وہ میرا دوست کتنا پریکٹیکل تھا یا کتنا نہیں لیکن دو باتیں دماغ پر دستک دینے لگیں: (1) کورونا وبا میں ہمارے سول سرونٹس نے اپنا کردار ادا کیا حالانکہ جس لیول اور جس انداز کی صاف شفاف پالیسی گورنمنٹ کی جانب سے آنی چاہیے تھی وہ نہیں تھی لیکن سول سرونٹس نے بھی اپنا احسن کردار ادا کیا. (2) بیوروکریسی کی کرپشن نے جمہوریت کی نرسری یعنی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا اور ایجوکیشن سسٹم کو انتہائی غریب رکھا مانا کہ اس میں سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشی کا بھی عمل دخل ہے۔
صداقت عامہ ہے کہ ممبران اسمبلی کا کام قانون سازی ہے اور ایگزیکٹوز نے پالیسیوں کو جنم دینا ہوتا ہے جسے عملی جامہ سول سرونٹس نے پہنانا ہوتا ہے۔ اگر سول سرونٹ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والا اور سیاسی و جمہوری افکار سے بغض رکھنے والا ہو تو کوئی حکومتی پالیسی نتیجہ خیز نہیں سکتی اور عوام تک سہولیات کی منتقلی تک ریلیف کی شکل ہی بدل جائے گی۔رولز آف بزنس سے کھلواڑ کرکے گر سول سرونٹ تساہل کو جنم دے گا تو رفاہی کامیابی قدم کیسے چومے گی؟ ان حالات و واقعات کے ذمہ دار کم فہم سیاست دان بھی ہیں کہ یہ اپنی پگڑی خود بھی سول سرونٹس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔شہباز شریف نے 2008 میں پیپلزپارٹی کے ساتھ جب مخلوط حکومت بنائی تو پیپلز پارٹی کے وزراء کے سیکرٹریوں کو حکم تھا وہ پیپلزپارٹی وزراء کی نہیں چیف منسٹر ہاؤس کی بات سنیں گے۔
گستاخی معاف وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کے پولیٹکل سیکرٹریز ہونے چاہئیں پرنسپل سیکرٹری نہیں. چیف سیکرٹری کی ضرورت کیا ہے جب چیف ایگزیکٹو موجود ہے؟ مرکز میں بیوروکریٹس کے بجائے ٹیکنوکریٹس زیادہ رکھیں کیونکہ مرکز اہم پالیسی ساز ہوتا ہے۔ مرکز ،صوبوں اور اضلاع کی اپنی خودمختار بیوروکریسی بناکر دیکھئے یہی سول سرونٹس آپ کو بہترین پرفارمنس دیں گے۔ ریکارڈ کیپنگ تو افسری نہیں نہ اپنی سمجھ میں کمشنرز ہی کی ضرورت ہے اور مالیاتی امور سیکریٹریز کا کام ہی نہیں۔ جو ماڈل ہمارا ہے اسی میں مالیاتی امور دیں وزراء کو اور وہی دستخط کریں ریکارڈز کیلئے 14 تا 17ویں اسکیل کے ملازمین کافی ہیں۔ چونکہ سیاستدان کا احتساب آسان ہے اداروں کے علاوہ ان کا احتساب عوام بھی کرتے ہیں چنانچہ کرنے دیجئے عوامی نمائندوں کو کام کب تک گڑبڑ کریں گے؟ یہ سول سرونٹ اور کچھ "اشرف المخلوقات” تو آپ کے سسٹم میں قابلِ احتساب ہی نہیں ہیں،ورنہ وہاں بھی ایگزیکٹو تقرریاں کریں اور اسمبلیاں مواخذہ کرسکیں تو دیکھئے سب ریاستی کس بل نکلتے ہیں کہ نہیں؟اصلاحات کا راگ الاپنے والی آج کی قیادت کو چاہیے ہر سطح پر آئین کی دفعہ 10( اے) کو مدنظر رکھ لے تو کافی ہوگا یہ ‘فیئر ٹرائل اور ڈیو پروسس ہر سطح پر لے آئیں تو تند بگڑے نہ تانی۔
جاتے جاتے اہل نظر کی نذر ایک عملی لطیفہ کرتا ہوں فیصلہ خود کیجئے گا کہ نیا پاکستان ہو یا پرانا پاکستان ہم اصلاحات میں مخلص کتنے ہیں۔ ایک ادارے کے افسر مجاز پر بدعنوانی کے سنگین الزامات تھے۔ایک وزیراعلیٰ اپنی ہی ٹیم یعنی سی ایم آئی ٹی سے انکوائری کراتا ہے۔انکوائری رپورٹ میں کرپشن کی پاداش میں واضح سفارشات کی جاتی ہیں کہ آفیسر کو عہدے سے ہٹادیا جائےمگر وزیراعلیٰ دوبارہ اپنا ہیرنگ افسر (ایک ایڈیشنل سیکرٹری) مقرر کرتا ہے اس کی بھی یہی سفارشات ہوتی ہیں کہ م عہدے سے ہٹایا جائے اور نیب کو کیس ریفر کیا جائے گویا ایڈیشنل سیکرٹری سے چیف سیکرٹری اور پھر کیس جاتا ہے متعلقہ محکمہ کے سیکرٹری تک وہ بھی وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم اور وزیر کے مقرر کردہ ہیرنگ آفیسر سے اتفاق کرتے ہوئے سمری وزیراعلیٰ کو بھیج دیتا ہے۔ وزیراعلیٰ آفس میں سمری چالیس دن رہنے کے بعد آخر پرنسپل سیکرٹری کے نوٹ کے ساتھ دوبارہ متعلقہ سیکرٹری کے پاس آجاتی ہے کہ نئے سرے سے تفتیش کرکے دوبارہ رپورٹ کریں۔ رواج یہ بتاتا ہے اب جب تک یہ کیس واپس جائے گا وہ افسرمجاز اپنی مدت پوری کرچکا ہوگا۔ وزیراعلیٰ انکوائریوں کی ایک سال کی عرق ریزی کیا غرق ریزی نہیں بن گئی؟ یہ قصور سول سرونٹس کا ہے سیاسی قیادت یا جمہوریت کا؟
سارا قصور بیوروکریسی کا بھی نہیں ہوا کرتا کیونکہ استحصال و اضطراب تو سول سرونٹس کی صفوں میں بھی بہت ہے۔ کچھ نااہلی کی وجہ سے آئے دن تبدیل ہوتے ہیں اور کچھ سپرسیڈ مگر رہتے سرکٹ ہی میں ہیں جبکہ کئی ہیرے سیاسی اشیرباد اور اعلیٰ تعلق داریاں نہ ہونے کے سبب او ایس ڈی یا مناسب پوسٹنگ نہ ملنے کے سبب زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ اگر سب سول سرونٹس کے ساتھ انصاف ہو تو یہ جمہوریت بچا ہی نہیں سکتے توانا بھی کرسکتے ہیں!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر