سرائیکی پاکستان کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے، اسے بولنے والے ملک بھر میں موجود ہیں، خیبرپختون خوا میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک وغیرہ، پنجاب میں ملتان ، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژن کے علاوہ سرگودھا ڈویژن کے بھکر، میانوالی اضلاع کے علاوہ نورپور تھل وغیرہ جبکہ بلوچستان میں بھی سرائیکی بولنے والی پاکٹس موجود ہیں۔
اندرون سندھ سرائیکی دوسری بڑی زبان ہے، کئی بڑے قبائل اور معروف سیاسی خانوادوں میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے، اگرچہ وہ اپنی شناخت سندھی کے طور پر رکھتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ان کی اپنی ترجیح ہے، مگر سرائیکی وہ بولتے ، سمجھتے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے اعداد وشمار ابھی پبلک نہیں کئے گئے، مگر پچھلی مردم شماری کے مطابق سرائیکی بولنے والی اچھی خاصی تعداد میں تھے، مجموعی طور پر سترہ فیصد سے زیادہ ۔
سرائیکی زبان کی گرائمر پنجابی زبان سے مختلف ہے، بے شمار روزمرہ کے الفاظ ، تاریخی حوالے اور کلچر بھی مختلف ہے۔ درحقیقت سرائیکی مائنڈ سیٹ اور سوچنے کا پیٹرن بھی مختلف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرائیکی علاقوں میں رہنے والے پنجابی گھرانے بیس بیس تیس تیس سال سے وہاں رہنے کے باوجود الگ الگ انداز میں کھاتے پیتے، اپنے کلچر کی پیروی کرتے ہیں۔
ریاست پاکستان نے سرائیکی کو الگ زبان تسلیم کر رکھا ہے۔ اس کے لئے خاصی طویل جدوجہد کی گئی، مگر بہرحال یہ کام اب ہوچکا ہے۔ مردم شماری کے فارم میں سرائیکی زبان کے لئے الگ خانہ ہے، پنجابی زبان کا الگ خانہ۔ اکادمی ادبیات پاکستان جو کہ سرکاری ادارہ ہے، وہ ہر سال سرائیکی ادب کے لئے الگ سے ایوارڈ دیتا ہے جبکہ پنجابی کتابوں کے لئے الگ سے کیٹیگری بنائی گئی ہے۔
ریڈیو پاکستان میں پنجابی خبروں کے ساتھ الگ سے سرائیکی خبریں نشر کی جاتی ہیں، مزے کی بات ہے کہ بہاولپور ملتان کے علاوہ سرگودھا سٹیشن سے بھی یہ خبریں نشر ہوتی رہی ہیں۔ سرائیکی زبان کو ایک زمانے میں پنجابی کا حصہ کہا جاتا تھا اور سرائیکی ناول ایم اے پنجابی کے نصاب مین شامل تھے۔ اب یہ غلط فہمی دور ہوچکی ہے اور سرائیکی زبان میں نہ صرف ایم اے ، ایم فل بلکہ پی ایچ ڈی بھی ہور ہی ہے۔ پی ٹی وی سے سرائیکی پروگرام تو خیر پچیس تیس سال پہلے شروع ہوگیا تھا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ تین چار کروڑ لوگ سرائیکی زبان بولتے ہیں، وہ اسے الگ زبان سمجھتے ہیں، اپنی اس شناخت پر فخر کرتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے وہ کسی دوسری زبان کی تضحیک نہیں کرتے۔ ان کا صرف یہی مطالبہ ہے کہ انہیں ، ان کی زبان کوعزت دی جائے، ان کی الگ شناخت ہے، صدیوں سے بلکہ ہزاروں سال قدیم ان کی تاریخ ہے، اس تاریخ، اس پس منظرکا احترام کیا جائے۔ وہ اس خطے میں بسنے والے تمام لوگوں، قومیتوں اور ان کی زبانوں کا احترام کرتے ہیں، ان کے ساتھ رشتے ناتے قائم کرتے ہیں، آسودگی اور سکون سے اکٹھے رہتے ہیں۔ سرائیکی خطے میں کبھی لسانی بنیاد پر تصادم یا ہنگامہ نہیں ہوا۔ کسی غیر سرائیکی بولنے والے کو اس بنیاد پر نفرت یا تضحیک یا حقارت کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
اکثریتی سرائیکی علاقوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ سرائیکی علاقوں سے پنجابی بولنے والے ارکان اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ طارق بشیر چیمہ بہاولپور ضلع جو کہ اکثریتی سرائیکی ضلع ہے، وہاں سے ضلع ناظم منتخب ہوئے تھے، ان کے مقابلے میں نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی ہار گئے تھے، سرائیکی بولنے والے کونسلروں نے بھی طارق چیمہ کو ووٹ دیا ، ان کی لسانی شناخت سے قطع نظر۔ یہی معاملہ ملتان کا ہے۔ وہاں اردو سپیکنگ، روہتکی بولنے والے، پنجابی بولنے والے بھی آباد ہیں جبکہ تاریخی طور پر ملتان سرائیکی اکثریتی آبادی کا ضلع ہے۔ کبھی کسی نان سرائیکی کو کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
ہمارے بعض بھولے بھالےدوست مٹھی بھر پنجابی شاونسٹوں کے گھیرے میں آ کر خواہ مخواہ سے سرائیکی پنجابی تنازع پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کہنا کہ سرائیکی پنجابی کا لہجہ ہے، ماجھے کا لہجہ ایسا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ، یہ تاریخ کا پہییہ دوبارہ سے گھمانے کی کوشش ہے۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو تیس چالیس سال پہلے ہوچکیں۔ ان کا نتیجہ بھی برآمد ہوچکا، ریاست پاکستان اس کا تعین کرچکی۔ اب پھر سے ان کوششوں سے کیا حاصل کرنا ہے؟ یہ کتنی بچکانہ سی بات ہے کہ آپ کسی دوسرے پر اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش کریں ۔ دوچار، چند سو، چند ہزار لوگوں پر چلو اکثریتی رائے مسلط بھی ہو جائے، کروڑوں لوگوں کو یہ کہنا کہ تم ڈفر ہو، چغد ہو، تمہیں نہیں معلوم کہ تمہاری زبان کون سی ہے، ہم اس عہد کی عقل کل ہیں، دانش کا پیکر ہیں، ہم تمہیں بتائیں گے کہ تمہاری زبان کس زبان کا لہجہ ہے۔
اللہ کے بندو جو نصف صدی سے پنجابی ہمسایوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، جن کے رشتے ناتے پنجابی گھرانوں میں ہوئے ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ پنجابی لہجہ کیا ہے اور سرائیکی لہجہ کیا ہے۔ کبھی ان لوگوں نے سرائیکی علاقوں میں آ کر کچھ وقت گزارا ہے؟ اگریہ صرف لہجے کا فرق ہے تو پھر اتنی واضح الگ الگ شناخت کیوں ہے؟ کسی بھی سرائیکی طالب علم، کسی مقامی سرائیکی سے پوچھیں کہ ااپ سرائیکی ہو یا پنجابی، وہ آپ کو واضح جواب دے گا۔ وہاں کے رہنے والے کسی پنجابی گھرانے کے بچے سے پوچھو، وہ بھی آپ کو واضح جواب دے گا کہ نہیں ہم سرائیکی نہیں، ہم پنجابی ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے مغائرت یا ناپسندیدگی نہیں مگر یہ شناخت کا مسئلہ ہے، اس لئے واضح کہا جاتا ہے۔ جس طرح سندھ میں بسنے والے پنجابی اپنے آپ کو پنجابی ہی کہیں گے سندھی اچھی طرح جاننے، بولنے کے باوجود وہ خود کو پنجابی ہی سمجھین اور کہیں گے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
یہ فطری ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ کہ پڑوسی خطے ہونے کے ناتے اور ایک دوسرے کے علاقوں میں رہائش کی وجہ سے، رشتے ناتوں کی وجہ سے سرائیکی اور پنجابی کے بہت سے لفظ مشترک ہوچکے ہین، ایک دوسرے کی زبان سمجھ لیتے ہین۔ جب تک پنجابی شاونسٹوں کی ایما پر سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ قرار دینے کی کوششیں ختم نہیں ہوں گی، اس وقت تک سرائیکیوں میں یہ تاثر برقرار رہے گا کہ ان کی لسانی، ثقافتی شناخت کا احترام نہیں کیا جا رہا، انہیں دبانے اور تسلط میں رکھنے کی یہ کوششیں ہیں اور اسی بہانے انہیں سیاسی طور پر خودمختاری بھی نہیں ملے گی۔ جب یہ تاثر دور ہوگیا تو دونوں قوموں میں محبت بڑھے گی ۔ باہمی تعلق زیادہ خوشگوار ہوجائے گا۔
جھنگ والوں کو شائد یہ خطرہ ہے کہ انہیں بھی جنوی پنجابی صوبہ میں شامل کر دیا جائے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی کوئی تجویز زیرغور نہیں۔ اسی طرح سرگودھا کو بھی اس مجوزہ نئے صوبہ میں شامل کرنے کی کوئی تجویز نہیں۔ اس وقت یہ ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژن پر ہی مشتمل ہے ، سرگودھا کے میانوالی اور بھکر کے اضلاع کو شامل رکنے کی تجویز ہے مگر وہ بھی سرائیکی ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ اس لئے کہ بھکر،لیہ نور پور تھل وغیرہ بنیادی طور پر تھل کا علاقہ ہے ، ان میں بہت کچھ مشترک ہے، مسائل بھی ایک جیسے ہیں اس لئے تھل کے علاقوں کو اکٹھا ہونا چاہیے ، تھل ڈویژن بنانے کی تجویز بھی اسی لئے دی جاتی ہے جس میں کوٹ ادو کو ضلع بنا کر شامل کرنا ہے۔ سرگودھا یا کسی بھی علاقے کو زبردستی کوئی شامل نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں میانوالی کو شامل ہونا چاہیے، مگر وہاں کے لوگ اگر نہیں چاہتے تو یہ ان کی ترجیح ہے،اس کا احترام ہونا چاہیے۔
آخری نکتہ کہ پنجاب کی تقسیم ہونا تقدیر ہے، بھارتی پنجاب کے تین حصے ہوئے، وہ بھی ہونے ہی تھے، پاکستانی پنجاب کی تقسیم اس لئے ہوگی کہ گورننس کے اعتبار سے اور پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر اتنا بڑا صوبہ چلانا ممکن نہیں۔ یہ مقدر ہے۔ مسلم لیگ ن کبھی ایسا نہیں چاہتی تھی، معروضی حالات نے انہیں بھی اس تقسیم کے حق میں کر دیا،اگرچہ وہ دو نئے صوبے بنانے کے حق میں ہیں، بہاولپور اور جنوبی پنجاب۔ تقسیم پر وہ بھی آمادہ ہیں، یہی سوچ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، ق لیگ اور پنجاب کی ہر قابل ذکر سیاسی جماعت کی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ایسا اچھے طریقے سے ہونا چاہیے، لسانی کشیدگی اور نفرت پھیلائے بغیر۔ میرے جیسے سرائیکی سرائیکی صوبے کے بجائے جنوبی پنجاب صوبہ پر اسی لئے راضی ہوئے کہ ہم نہیں چاہتے کہ سرائیکی وسیب میں کسی قسم کی تلخی پیدا ہو۔ انتظامی بنیاد پر ہونے والی تقسیم سے وہاں رہنے والے پنجابی ، روہتکی، اردو سپیکنگ لوگ مضطرب نہیں ہوں گے۔ اس سے ہونے والے فوائد سے سب بلا امتیاز مستفید ہوں گے۔ جنوبی پنجاب میں رہنے والے پنجابی دوستوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایک کام ہونے جا رہا ہے، وہ ہو کر ہی رہے گا۔
اگر اس کی بلاوجہ مخالفت کی گئی اور لسانی مناقشے کھڑے کرنےکی کوشش ہوئی تو اس کے نتیجے میں مقامی سطح پر کشیدگی پیدا ہوگی اوراس کا فائدہ شدت پسند ہی اٹھائیں گے۔ سرائیکی شاونسٹوں یا سخت گیر قوم پرستوں کا ایک مختصر حلقہ موجود ہے اگرچہ سرائیکیوں کی اکثریت غیر متعصب ہے۔ شدت پسندوں کے ہاتھ میں یہ تنازع ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ براہ کرم ان نزاکتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر