نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بجٹ کی منظوری اور سانحہ کراچی ۔۔۔ حیدر جاوید سید

وفاقی بجٹ کی منظوری کے مرحلہ میں مو بائل سم کے اجرا پر250روپے ٹیکس لگانے کا فیصلہ بھی نامناسب ہے۔

سوموار کو160ووٹوں سے حکومت نے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ منظور کروالیا۔قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت کے پاس182ووٹ ہیں بجٹ کی منظوری کے لئے160ارکان موجود تھے۔اپوزیشن کے119ارکان ایوان میں تھے جبکہ اس کے قومی اسمبلی میں 166ووٹ ہیں اسی طرح اس کے47ارکان غیر حاضر تھے ۔
اکیسویں صدی کے ماہر ریاضی جناب اسد عمر ان47اپوزیشن ارکان کو جو غیر حاضر تھے اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں نئے پاکستان میں حساب کتاب اسی طرح ہوگا

مثال کے طور پر1970ء کے عام انتخابات اور بعد ازاں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں دو صوبوں اور وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو ہمارے اسلام پسند صحافی بہن بھائی یہ کہا کرتے تھے کہ پی پی پی کو انتخابات میں مجموعی طور پر33فیصد ووٹ ملے ہیں اور مخالفین67فیصد ہیں اس لئے اقلیت اکثریت پر حکمران ہے۔
ان67فیصد میں ووٹ نہ ڈالنے والے بھی شامل کئے جاتے تھے۔
جنرل ضیاء کے ریفرنڈم، یا1985ء کے غیر جماعتی قومی انتخابات کے موقع پر ڈالے گئے ووٹوں اور عدم دلچسپی کے حامل رائے دہند گان کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کئے جانے پر ہمارے یہ اسلام پسند بہن بھائی ہتھے سے اکھڑ جاتے کچھ تو باقاعدہ گلے پڑنے لگتے تھے۔
بہر طور بجٹ منظور ہوگیا چھوٹی چھوٹی خواہشوں پر پچھلے دنوں دھمالیں ڈالنے والے دوستوں کے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔
بجٹ کی منظوری والے دن قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔مراد سعید نے فاطمہ بھٹو کی کتاب پڑھنے کامشورہ دینے کے ساتھ بلاول کو اپنے مقابلہ میں الیکشن لڑنے کا چیلنج بھی دیامواصلات کے وفاقی وزیر کہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کے وارث بلاول نہیں فاطمہ بھٹو ہیں، وہی فاطمہ بھٹو جس کی سالانہ بنیادوں پر تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم پچھلے کئی سالوں سے اڑاتی چلی آرہی ہے۔
سیاسی وراثت کے اپنے اصول اور تقاضے ہیں اس موضوع پر کسی اور کالم میں عرض کریں گے۔فی الوقت تو یہ کہ ہمارے مرشد دوئم ملتانی مخدوم شاہ محمود قریشی کی تقریر پر فقیر راحموں نجانے کیوں دھمال ڈالتے رہے۔
ہمارے ایک دیرینہ دوست طافورنگ باز کا کہنا ہے کہ جناب شاہ محمود قریشی کی تقریر غم واندوہ سے بھری ہوئی تھی۔
ان سے وضاحت چاہی تو کہنے لگے شاہ جی اپنے فقیر راحموں سے پوچھ لو۔
پچھلے مالی سال کے حوالے سے آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں چالیس وفاقی محکموں اور اداروں میں مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے موجود اعدادوشمار عجیب وغریب ہیں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق270ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں وزارت خزانہ نے ایک تردیدی بیان ضرور جاری کیا ہے مگر تفصیل سے ان نکات کی وضاحت نہیں کی جو آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ کا حصہ ہیں
اسی طرح کوئی حکومتی ذمہ دار عوام الناس کو یہ بھی نہیں بتا رہا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے کمپنیوں نے4سو ارب کمائے آٹا،چینی سکینڈل میں 3سو ارب ہتھیائے،پٹرولیم کی حالیہ قیمتوں میں اضافے سے3سو ارب اور پاور سکینڈل کے4سو ارب روپے کی وصولی کے لئے کیا اقدامات ہوئے اور حکومت( وفاقی حکومت) نے ان15سوارب روپے کی لوٹ مار کے سہولت کاروں کے خلاف اب تک کیا اقدامات اٹھائے۔
اصولی طور پر وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ لوٹی گئی اس دولت کی واپسی کے سخت ترین اقدامات کرے کسی اور رورعایت کے بغیر لٹیروں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی بھی تاکہ مستقبل میں کسی کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ حکومت کو چونا لگائے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹے۔
وفاقی بجٹ کی منظوری کے مرحلہ میں مو بائل سم کے اجرا پر250روپے ٹیکس لگانے کا فیصلہ بھی نامناسب ہے۔بیرون ملک سے عارضی طور پر وطن آئے شہری یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے زیر استعمال موبائل فون پر عاید ٹیکس جمع کروانے کے لئے ایف بی آر نے نوٹس بھیجے ہیں مہنگی ٹکٹیں خرید کر عارضی طور پر وطن آنے والے شہریوں کے ساتھ ناانصافی کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
سوموار کی صبح کراچی میں سٹاک ایکسینج کی عمارت پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران ایک پولیس اہلکار سمیت نجی کمپنی کے تین سیکورٹی گارڈ شہید ہوئے جبکہ پولیس اور سیکورٹی گارڈ کی بروقت کارروائی سے چاروں حملہ آور مارے گئے۔
اس حملے کی ذمہ داری بی ایل ایف کے مجید گروپ نے قبول کی ہے۔
یہ بجا ہے کہ سندھ پولیس اور نجی سیکورٹی گارڈ کی جوانمردی نے کراچی اور ملک کو بڑے سانحہ سے بچالیا
البتہ اس حوالے سے شروع ہوئی بحث میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کے حوالے سے بعض سوالات پر کھڑا کیا گیا طوفان بد تمیزی کسی بھی طرح درست نہیں
پچھلے40سال سے کراچی رینجرز کی تحویل میں ہے اس کے پاس پولیسنگ تک کے اختیارات ہیں سندھ کے سالانہ بجٹ سے باقاعدہ معاوضہ ادا ہوتا ہے اس طور اگر یہ سوال کیا جارہا ہے کہ شہر میں جگہ جگہ لگے ناکوں اور قائم چوکیوں کے باوجود چار مسلح افراد وقوعہ والی جگہ تک کیسے پہنچے تو اس پر بُرا منانے کی ضرورت ہے نہ فتوے اچھالنے کی۔
اس حملہ کے وقت کے حوالے سے بھی سوالات ہیں پچھلے چند دنوں سے بلوچستان میں طلباء وطالبات اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں کچھ شہروں میں مسنگ پرسنز کے ورثا کا احتجاج جاری ہے
عین اس موقع پر بی ایل ایف مجید گروپ کی یہ کارروائی پر امن سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر خودکش حملہ شمار ہوگی
اس میں اہم ترین بات یہ دعویٰ ہے کہ چاروں حملہ آور مسنگ پرسنز میں شامل تھے جبکہ دستیاب معلومات کے مطابق چار میں سے ایک سلمان کا نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل تھا۔
مناسب ہوگا کہ سیکورٹی ادارے اس حوالے سے ثبوتوں کے ساتھ معاملے کی وضاحت کریں تاکہ عوام پورا سچ جان سکیں۔
سوموار کے سانحہ کراچی کے بعد بلوچ ایشو پر جس مکالمہ کا آغاز ہوا ہے وہ خوش آئند ہے اس مکالمہ کا آغاز معروف صحافی عزیزم عامر ہاشم خاکوانی نے کیا ہے اہل دانش کو اس میں شرکت کرنا چاہیئے تاکہ مسائل کے حل کے لئے کوئی دروازہ کھل سکے۔

About The Author