https://www.youtube.com/watch?v=Pb6bUEAE1YA
اسلام آباد: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کورونا وائرس پھیلا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جناب اسپیکر آپ کو ہاؤس میں صحت یاب دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ ہم تاریخ میں اس وقت چیلنجز کے سامنے کھڑے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کورونا سے ہر 15 منٹ بعد ایک شخص جان کی بازی ہار رہا ہے۔ ہمارا 2020 کا جو بجٹ ہے، وہ ہمارا بجٹ نہیں ہو سکتا۔ موجودہ صورتحال میں پیش کیاگیا بجٹ پاکستان کا بجٹ نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ دو ہزارڈاکٹراورنرس کوروناکےمریض بن چکے۔ طبی عملےکے 40 ارکان کورونا سے شہید ہوچکے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کو 15 برس بعد ٹڈیوں کے سب سے بڑے حملے کا سامنا ہے۔ ہر پاکستانی کی معاشی حالت متاثر ہو رہی ہے۔ ٹڈی دل کا خطرہ ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی پیش گوئی ہو رہی ہے۔ افسوس ایسے حالات میں ایسا بجٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بجٹ کرونا ، ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کرونا کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز اور طبی عملہ بھی کرونا سے متاثر ہیں۔ افسوس ہمارے پاس کوئی حل تک نہیں ہے۔
وزیراعظم کا نام لیے بغیر انہوں نے پوچھا کس نے کہا تھا کہ کرونا صرف زکام ہے؟ کس نے کہا تھا کہ کرونا وائرس جان لیوا نہیں ہے؟ کون کہتا تھا کہ گرمیوں میں کرونا خود بخود ختم ہو جائے گا: کس نے کہا تھا کہ لاک ڈاون حل نہیں ہے۔ آج تک وہ کنفیوز ہے؟ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں۔ آپ کیسے اس عوام کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ کہتے ہیں عوام جاہل ہیں۔یہ عوام ان کو انتخابات میں سبق سکھائیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ہر فیصلے اور مشورے کی مخالفت کی جو کورونا وائرس کی وبا کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا۔وفاق نے کورونا پر اپنی صوبائی حکومتوں کی مخالفت کی۔ حکومت کے اقدامات سے زبردستی کورونا پھیلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب جب کورونا پھیل گیا تو بجٹ میں وبا سے پھیلنے کی کیا تیاری کی جا رہی ہے۔ کیا کورونا سے نمٹنے کیلئے بجٹ میں صحت بجٹ میں اضافہ کیا گیا؟ بجٹ دیکھ کر لگتا ہے کورونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ ملکی خطرات سے متعلق آگاہی مہم چلائی۔ گزشتہ سال صدر زرداری میں ٹڈی دل کا معاملہ اٹھایا اب کورونا کا معاملہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے ہمارے لوگ شہید ہورہے، جب تک ارمی پبلک اسکول میں بچے شہید نہیں ہوئے کسی نے بات نہیں مانی؟ ٹڈی دل پر نیشنل ایکشن پلان بنا لیکن کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کیا حکومت چاہتی ہے سارے کھیت تباہ ہوجائیں اور کسان کا معاشی قتل ہو؟
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کی سلیکشن میں وفاق اور لوگوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھرائیں؟
انہوں نے کہا کہ آج سکھرمیں ایک جہازکھڑاہے اورپائلٹ تک موجود نہیں، کس بات کاانتظارکررہے ہیں؟ آپ کی سلیکشن کی قیمت انسانی جانوں،معیشت اورفیڈریشن کونقصان کاذمےدارکس کو ٹھہرائیں۔
بلاول نے کہا کہ لاک ڈاون کوعید کے ختم ہونے تک جاری رکھ سکتے تھے۔ ہم نے ڈبلیو ایچ او کی ایس او پیز کےتحت لاک ڈاون کا مطالبہ کیا۔ ہم نے لاک ڈاون سےمتعلق ڈاکٹرز اور ماہرین کی رائے کو ترجیح دی۔ وزیراعظم نے لاک ڈاون سےمتعلق بزنس مین کی بات مانی۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کو کہاتھا لاک ڈاون آہستہ آستہ ختم کریں۔ سندھ میں آج کورونا کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہم نے جرمنی اور دیگر ممالک سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ویتنام میں کورونا کے باعث ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ ویتنام نے ایک قوم بن کر کورونا کا مقابلہ کیا۔ ویتنام نے زندگی اور معیشت کو بچایا ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم نے صرف کہا گھبرانا نہیں، 92کا ورلڈ کپ جیتاہے۔ ہمارا کورونا کا وزیر وبا کو اس طرح سنھبال رہے ہیں، جیسے معیشت کو سنبھالا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ایس او پیز پر عمل کر اب بھی اقدامات کیے جاسکتےہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ لاک ڈاون کے دوران وزیراعظم نے چندے کے لیے امیر لوگوں سے ملاقات کی۔ وزیراعظم بتائیں کہ لاک ڈاون کے دوران کتنے ڈاکٹرز اور کتنے غریب لوگوں سے ملے؟
انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم کو مزدوروں کی فکر تھی تو بتائیں کہ کرونا کہ دوران کتنی ملاقاتیں کیں۔ بتایا جائے کتنے بینکاروں سے ملے، کتنے ڈاکٹرز مزدوروں نرسوں فورسز سے ملے ہیں۔ غریب کا نام استعمال کرکے امیروں کو فائدہ پہنچایا گیا اور
یہی بجٹ میں کیا گیا ہے۔
..انہوں نے کہا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔ ہمیں اپنی صحت کے سسٹم کو اوپر لے کر آنا تھا۔ لوگوں کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کے لیے طریقہ نکالنا چاہیے تھا۔ اگر ہم لاک ڈاؤن کو عید کے آخر تک جاری رکھتے، تو کم ازکم اپنے دیہات بچا سکتے تھے۔ ہم اس وائرس کو بڑے شہروں تک پھلینے سے روک سکتے تھے۔ ہمیں عالمی ادارہ صحت کی بات سننا چاہیے تھی۔ لیکن ہمارا وزیراعظم اپنے اے ٹی ایم کی بات سن رہے تھے۔
بلاول نے کہا کہ وفاق نے امیر کو فائدہ پہنچایا اور غریب کو نقصان۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ کم کیاگیاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی تو بی آئی ایس پی میں 200 فیصد اضافہ کرتے۔ تحریک انصاف کا بجٹ روایتی آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کورونا سے متعلق ہمارے پاس چین،جرمنی، اٹلی،نیوزی لینڈ کی مثالیں موجود تھیں۔ جن ممالک نے وقت پر اقدامات اٹھائے انھوں نے آج کورونا پر قابو پالیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی عوام سے امید کی گئی کہ وہ خود احتیاط کریں گے تو معاشی اور انسانی نقصان کی بہت خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ حکومت کا کام آج بھی آئی ایم ایف کو ریلیف دینا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر تنخواہ کم کرنی ہے تو وزیراعظم کی جائے۔
بلاول نے کہا کہ ہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں پندرہ سے بیس ملین لوگوں کے لیے کیش ٹرانسفر کرنا پڑے گا۔ وبا میں بھی حکومت کو آئی ایم ایف کی فکر ہے عوام کی نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ