جان کی امان ہو تو جناب وزیراعظم کی خدمت میں عرض کروں پچھلے تین ماہ کے دوران 5افراد بھوک سے اور 2175افراد کورونا سے جاں بحق ہوئے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہے نا متعلقہ اداروں کے پاس مطلوبہ صلاحیت، محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہمارے حالات دنیا سے مختلف ہیں۔
حضور! پہلے یہ تو طے کر لیجئے کہ کورونا وبا ہے یا ”فلو”۔
وزیراعظم کے احباب اور مشیران انہیں بتائیں کہ عالمی ادارہ صحت نے پنجاب کی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے نام بھجوائے گئے اپنے خط میں کہا ہے
”پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا وباء کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا”
ڈبلیو ایچ او نے دو ہفتہ کی لاک ڈاؤن اور دو ہفتہ کی نرمی والی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا ہے”۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ان سطور کے لکھے جانے تک کورونا سے ملک بھر میں 2185اموات ہو چکیں صرف منگل کے روز 105افراد جاں بحق ہوئے اور اسی روز 4646نئے مریض تشخیص ہوئے۔ این سی او سی کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار مریضوں میں سے 1489مریضوں کی حالت نازک ہے۔
یہ بجا ہے کہ عوام الناس کے مختلف طبقات میں غیرسنیجدگی کا رجحان زیادہ رہا لیکن کیا حکومتی اشرافیہ کسی مرحلہ پر سنجیدہ دکھائی دی؟
صورتحال کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، یہ وقت سیاست برائے سیاست یا الزامات کے ہفتہ وار دنگل کا نہیں بلکہ حقیقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا ہے۔
وہ (وزیراعظم) درست کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں احتساب کیلئے ووٹ دیئے ہیں پیچھے نہیں ہوں گا۔
معاف کیجئے گا ”دکھ اور طرح کے ہیں دوا اور طرح کی”۔ مثال کے طور پر 72روپے کلو والی چینی یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے 82روپے کلو کیوں خریدی گئی۔
منظوری کس نے دی؟
وزیراعظم نے پچھلے سال وعدہ کیا تھا ادویات کی قیمتیں بڑھانے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی زائد وصول کردہ قیمت واپس لے کر صارفین کی دادرسی کریں گے،
کیا ہوا؟
احتساب کے نئے بادشاہ شہزاد اکبر چینی سکینڈل کی رپورٹ لہراتے پریس کانفرنسوں میں دھاڑتے ہیں، سوال بہت سادہ ہے! سبسڈی ایک معاملہ تھا لیکن اس سے اہم معاملہ 55روپے کلو والی چینی کی قیمت کا 80سے85روپے فی کلو تک پہنچ جانا تھا۔ عوام اور اخبار نویسوں کو شہزاد اکبر نے ہی بتایا تھا کہ قیمتیں بڑھا کر شوگر مافیا نے صارفین کی جیب سے 200ارب روپے نکلوا لئے۔ تو اب ان 200ارب روپے کی واپسی کیسے ہوگی؟
دنیا میں جو دیگر ممالک کورونا سے متاثر ہوئے کیا وہاں کی حکومتوں نے دیگر امور مملکت روک دیئے؟
جی نہیں یہ ہم ہی تھے جو دو سے اڑھائی ماہ تک لاک ڈاؤن کے مصائب پڑھتے رہے اور عدم لاک ڈاؤن کے فضائل بیان کرتے رہے۔
جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا تھا سیاست پھر کر لیں گے ابھی کورونا سے ملکر لڑتے ہیں تو اسلام آباد سے کراچی تک کے توپچی اس پر چاند ماری میں جُت گئے۔
ٹھنڈے دل سے مان لیجئے کہ وفاق قومی اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام رہا اس ناکامی پر مہر جناب وزیراعظم نے لگائی تھی انہیں یاد ہوگا قومی اسمبلی کے سپیکر کی بلائی گئی پارلیمانی رہنماؤں کی کانفرنس میں اپنے خطبہ کے بعد وہ (وزیراعظم) اپنا ویڈیو لنک بند کر گئے تھے۔
قومی اتفاق رائے تحمل اور بردباری سے قائم ہوتا ہے۔ وزیراعظم اپنی اپوزیشن کی مشکل دیکھنے کے روادار نہیں۔ حضور یہ (اپوزیشن) بھی لوگوں کے ووٹ لیکر پارلیمان میں موجود ہے، یہاں کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ احتساب کے عمل کو بند کردیا جائے، عرض یہ کیا جارہا ہے کہ حالات کی سنگینی کا احساس کر کے ترجیحات کا ازسرنو تعین کیا جائے۔
حکومت کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ اس کے فطین معیشت دانوں کی ناقص پالیسیوں نے اور روپے کی قدر میں کمی سے مسائل پیدا ہوئے۔
حکومت کو اپوزیشن سے اور اپوزیشن کو حکومت سے لاکھ شکایات ہوں گی، فی الوقت تو یہ بتلائیے کہ عوام کس کے دروازے پر فریاد لیکر جائیں۔
آگہی کی جو مہم اب شروع کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اس پر ابتداء میں عمل کر لیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ این سی او سی کے کورونا کے حوالے سے جاری کردہ اعداد وشمار تو خود پنجاب کی وزارت صحت کے اس خط سے مطابقت نہیں رکھتے جو حال ہی میں لکھا گیا اور اس میں صرف لاہور میں کورونا کے ممکنہ مریضوں کی جو تعداد لکھی گئی وہ دہلانے کیلئے کافی ہے۔
ملک بھر کے طبی ماہرین این سی او سی کے اعداد وشمار سے متفق نہیں، خود عالمی ادارہ صحت نے کورونا کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔
کیا کہیں اس خط کی روشنی میں صورتحال کا تجزیہ کیا جائے گا؟
ڈبلیو ایچ او کے مطابق یومیہ 50ہزار ٹیسٹوں کی اہلیت کا حصول ضروری ہے، این ڈی ایم اے نے اس حوالے سے کیا اقدامات کئے؟
جناب وزیراعظم اور ان کے رفقا کو سمجھنا ہوگا کہ معروضی حالات کی بنا پر تجزیہ کرتے اور اصلاح احوال کی طرف متوجہ کرتے طبی ماہرین یا دوسرے ان کے مخالف ہیں نادشمن،
کیا وزیراعظم اس امر سے لاعلم ہیں کہ ایس او پیز پر عدم عملدرآمد کی وجہ سے مسائل بڑھے؟
تکرار سے اجتناب کرتے ہوئے یہ عرض کئے دیتا ہوں اگر حکومت صورتحال کی سنگینی کا ادراک اولین مرحلہ میں کرلیتی تو کسی طبقے کے دباؤ پر پسپا نہ ہوتی۔
خیر جو ہوگیا سو ہوگیا، اب سوچئے کیا کرنا ہے۔
کورونا اور غربت کی کہانی سناتے رہنا ہے یا اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ کورونا سے بچ گئے تو غربت اور دوسرے مسائل سے بھی لڑیں گے۔
مکرر عرض ہے وزیراعظم اس ملک کے وزیراعظم ہیں ناکہ تحریک انصاف کے، انہیں سب کو ساتھ لیکر چلنا اور قومی یکجہتی کی فضا قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کسی تاخیر کے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پارلیمانی رہنماؤں کی کانفرنس طلب کریں، مشاورت ومدد کیلئے ملک کے نامور طبی ماہرین کو بلائیں اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھی اور متفقہ پالیسی وضع کرائیں پھر اس پر عمل کیلئے خود قیادت کریں، یہی ایک صورت ہے اس مشکل سے بچ کر آگے بڑھنے کی۔
”ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر