نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسٹیل ملز کراچی ملازمین کی جبری بیدخلیاں ۔۔۔ رؤف لُنڈ

جب یہ احساس و ادراک جاگ اٹھا تو پھر نہ کسی محنت کا استحصال ہوگا اور نہ محنت کشوں کا استحصال کرنے والا کوئی بھی باقی رہے گا۔

انصاف کا کوئی میعار ؟ مگر طبقاتی سماج بھی بالادست طبقے کی گماشتگی کے علاوہ انصاف کیا ہو سکتا ھے ۔۔۔۔؟
لیکن پھر انسانوں کی تقدیر بدلنے والے محنت کش بھلا ہمیشہ کب چپ رھے اور کیوں رہیں ؟ بس ذرا میدان سجنے کا وقت تو آئے۔۔۔۔۔۔۔۔

کروڑوں ملازمتیں دینے کا وعدہ کرنے والی سرکار نے پاکستان سٹیل ملز کراچی سے سینکڑوں مزدور ملازمین کی بیدخلی کا فرمان جاری کیا ھے۔ اور ان بیدخلیوں کا سرکاری جواز حسبِ معمول کرپشن و بحران بتایا اور بنایا جا رہا ھے۔

اگرچہ طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے بالادست طبقے کو تحفظ دینے والی ریاست کے کسی بھی ادارے پر اعتبار و اعتماد کرنا بیوقوفی ہوتا ھے مگر جب تک محنت کش طبقہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے اور اسے اپنے حق میں تبدیل کرنے کی تگ و دو نہیں کرتا تب تک پاکستان کا محنت کش طبقہ ” مرتا کیا نہ کرتا ” کے مصداق اور اس شعر کی حقانیت کے ساتھ کہ
ھم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو پھر زنجیر ہلا دیتے ہیں

پاکستان کا محنت کش طبقہ مطالبہ کرتا ھے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ججوں کی کم از کم تین رکنی کمیٹی کا تقرر کرے جو اس بات کا تعین کرے کہ ” آیا پاکستان سٹیلز میں اب تک کرپشن اور بحران کی ذمہ دار پاکستان پر اب تک حکمرانی کرنے والا طبقہ ھے؟ ان کے گماشتے ہیں ؟ فوج سے ریٹائرڈ ہو کر سٹیل ملز کراچی کے انتظامات سنبھالنے والے جنرلز اور کرنلز ہیں یا مردم بیزار، سخت و کرخت اور بیہودہ شاہانہ رویوں کی مالک بیوروکریسی ھے؟ یا ان سب کے گماشتہ ٹریڈ یونین کے وہ عہدیدار ہیں جو اپنے مفادات و مراعات کے بھوک کے اسیر ہوکر اپنے مزدور بھائیوں کی زندگیوں کا سودا کرتے ہیں اور یا وہ محنت کش جو رات دن اپنے بدن کی شریانوں کا لہو سٹیل مل کے کل پرزوں میں شامل کر کے اس کو چلاتے رہتے ہیں ؟
یہ اعلیٰ عدالتی کمیشن جن کو ذمہ دار قرار دے تو پھر بے شک ان ذمہ داران کو بیدخل کردیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر حکومت و حکمرانوں کا یہ خیال ھے کہ جن کو نکالا گیا ھے یہ وہ لوگ ہیں جو کام نہیں کرتے۔ تو پھر ایک بات تو طے ھے اور اس کیلئے نہ کسی ثبوت کی ضرورت ھے اور نہ دلیل کی کہ اپنے قیام سے لیکر اب تک وطنِ عزیر مملکتِ خدا داد اپنی عمر کے تہتر سالوں میں ترقی کی شرح زوال و پسماندگی کی طرف ہی گئی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آئیں کریں بسم اللہ ! ملک کے ہر شعبے کے سربراہان اور ان کی ٹیم کے نا لائق، نا اہل ارکان کو بیک جنبشِ قلم ذمہ دار قرار دیتے ہوئے فارغ کیا جائے۔ اور ان سب سے اب تک لوٹی ہوئی دولت اور وسائل چھین کر ان تہی دامن لوگوں پر صرف کئے جائیں کہ جنہیں ہر دور میں بلا جواز عتاب کا شکار بنایا گیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر بات پھر وھی کہ رہزن کو رہنما، ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا کیا کہنا اور کیوں کہنا؟ گھوڑے سے اس بھلائ کی توقع کیوں رکھنا اور یہ احسان کیوں اٹھانا کہ وہ گھاس کھانا چھوڑ دے ؟ ۔۔۔۔۔۔ ضرورت عظیم انقلابی استاد اور انقلاب روس کے دوران نا قابلِ شکست ریڈ آرمی تخلیق و تعمیر کرنے والے کامریڈ لیون ٹراٹسکی کے اس قول کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ھے کہ ” آج تک کبھی کسی بلا نے اپنے خونی پنجے خود کاٹ کر نہیں دئیے بلکہ اس بلا کے شکار ہونے والوں نے آگے بڑھ کر کاٹنے ہوتے ہیں۔۔۔ "

جب یہ احساس و ادراک جاگ اٹھا تو پھر نہ کسی محنت کا استحصال ہوگا اور نہ محنت کشوں کا استحصال کرنے والا کوئی بھی باقی رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
بس ایک ذرا دیر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں ۔۔۔۔۔ اور دیکھ لینا جب سب محکوم اور مظلوم یہ جان جائینگے تو سرفرازی و سرخروئی سے گنگنائیں گے کہ ظلم کی بات ھی کیا ؟ ظلم کی اوقات ھی کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

About The Author