نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب آنکھیں تکتی رہ گئیں، ایک اور حادثہ ۔۔۔فہمیدہ یوسفی

قومی ائیر لائن کے شعبہ انجیئنرنگ کے کل ملازمین کی تعداد 31 سو ہونے کے باوجود پی آئی اے کے طیارے مسافروں کو موت کے سفر پر کیوں بھیج رہے ہیں؟

جب آنکھیں دراوزے پر ٹکی ہوں کان ہر آہٹ پر لگے ہوں، دل کسی پیارے کے انتظار میں دھڑکتا ہو اور انتظار کی گھڑیاں بس ختم ہونے کو ہوں۔

کوئی اپنا کوئی بہت ہیارا بس دو گھنٹے کے فاصلے پر  ہو۔ کسی اپنے نے  بس چند گھنٹوں پہلے آنے کی اطلاع دی ہو ، کسی معصوم کی آخری  ہنسی نے ٖفضا کو  اپنی شرارتوں کا گواہ بنایا ہو۔  کسی جوان بیٹے نے ماں کو فون کرکے اپنی فرمائشی لسٹ تھمادی ہو۔ کسی باپ نے مسکراکر بیٹی کے میسیج کا جواب دیا ہو  کہ بس پہنچ  گیا  کسی زندگی سے بھرپور  ساتھی نے مسکراکر فلاٗئٹ میں اپنے ساتھی کو سنبھالا ہو۔ کہیں کوئی ماں  کوئی باپ  کہیں کوئی بیٹی کوئی بیٹا کوئی ساتھی  بس  ائیر پورٹ  پر انتظار میں ہو کہ کب اس کا پیارا  لینڈ کرے  اور وہ اس سے گلے ملے خوب ہیار کرے  سفر کے بارے میں جلدی جلدی پوچھے بس گھر لیجانے کی جلدی میں ہو۔  اور دوسری جانب  فلائٹ میں موجود تھکے تھکے سے لیکن خوش مسافر  جو اپنوں سے ملنے کے انتظار میں ہوں  ۔کہیں کوئی تھکا ماندہ مسافر  عید کے لیے بچوں کے پاس آنا چاہتا ہو۔ تو کہیں کوئی شب گزیدہ مسافر سائبان کی تلاش میں واپس گھر پہنچنا چاہتا ہو۔ کہیں کوئی پیارا مسافر وطن پر جان قربان کرنے سے پہلے ماں کو دیکھنا چاہتا ہو۔ کہیں کوئی تھکا تھکا سا مسافر  اپنوں کی ہنسی کے لیے بے چین ہو۔ کہیں کوئی جیتا جاگتا مسافر زندگی جینا چاہتا ہو۔ لیکن اب یہ تھکے ماندے  مسافر واپس نہیں آئینگے۔ ان کی زیست کا سفر تمام ہوا  بھڑکتے شعلوں نے ان کے خواب جلاڈالے  بچی صرف راکھ  جس  کے لیے ان کے پیارے اب دھکے کھاتے بھرینگے۔

گھر کے راستے سے بس منٹوں میں فنا کے راستے پر یہ جانے والے درماں نصیب  اپنے پیچھے صرف  کہانیاں  آنسو نہیں چھوڑگئے  بلکہ  کئی سوال بھی چھوڑ گئےہیں۔

اپنے درد کے نشان بھی چھوڑگئے  ہیں ۔ بس ایک منٹ کی دوری سے زندگی سے ہارجانے والے مسافروں کی منزل کے نشان اب درد کی کتابوں میں ہی ملیں گے۔

اس حادثے کے بعد بھی وہی روایتی باتیں  وہی روایتی بیانات  اور وہی روایتی تسلیاں  زیادہ سے زیادہ سے انکوائری کا فیصلہ  اور ممکنہ طور ہر اس حادثے کی ذمہ داری بھی اس بدنصیب  طیارے  کے پائلٹ کے اوپر ڈالدی جائیگی کیونکہ وہ تھکا ماندہ مسافر  تو زندگی کے راستے بھٹک چکا۔

ہاں اگر کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرے تو اس کو غدار قرار دینا  ضروری ہے ۔ یہ ہوچھنا ہر گز ضروری نہیں ہے کہ  جب چئیرمین پی آئی اے کو 3890 ملین کی کرپشن پر ہائی کورٹ نے برطرف کردیا تھا تو  معزز  سپریم کورٹ نے اگلے دن ہی کیوں  بحال کردیا۔ یہ پوچھنا ہر گز ضروری نہیں ہے کہ ایک سال قبل کے اعداد و شمار کے مطابق قومی ائیر لائن کے جہازوں کی دیکھ بھال پر معمور شعبہ انجیرنگ میں 3 پرائمری پاس پروجکیٹ ٹیکنیشنز کیوں  ہیں ؟  چھ سنئیر ٹیکنشنز کی تعلیمی قابلیت مڈل کیوں ہے؟

قومی ائیر لائن میں 300 سے زائد میٹرک پاس شعبہ انجینئرنگ میں کیوں ہیں؟ پی آئی اے کے7 انجینئز کی قابلیت آئی کام کیوں  ہے؟

جہازوں کی مرمت کے لئے 66 بی کام انجینئر ۔ساڑھے 3سو سے زائد ایف اے پاس انجینئرز کیا کررہے ہیں ؟۔ قومی ائیر لائن کے  شعبہ انجیئنرنگ کے کل ملازمین کی تعداد 31 سو ہونے کے باوجود پی آئی اے کے طیارے  مسافروں کو موت کے سفر پر کیوں بھیج رہے ہیں؟

پی آئی اے  کے طیاروں میں فنی خرابیاں روز کا  معمول کیوں ہیں ؟ مسافروں کے ساتھ پائلٹ اور کریو کو بھی موت کے منہ میں ڈالنے والا  لازمی سروس ایکٹ  کیا جانوں سے بڑھ کر ہے؟

کوئی نشاندہی کوئی ذمہ داری یا پھر کوئی استعفی آئیگا یا پھر ہم بےحسی کی چادر اوڑھ کر کسی اور حادثے کا انتظار کرینگے  ایک کے بعد ایک حادثہ ایک کے بعد ایک کربلا کیوں لیکن؟

صبح مقتل ہے کہیں، شام غریباں ہے کہیں

کربلاؤں کا تسلسل ہے کہ تھمتا ہی نہی

اب  تھکے ماندے مسافروں کی آنکھیں  منزل سے کچھ  دیر  پہلے بند ہوگئیں ہیں  اور انتظار کرنے والوں کی بے بس آنکھیں بس تاحیات اب تکتی رہ جائینگی۔

About The Author