مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی اہلیہ کے ہمراہ پیدل سپریم کورٹ جانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ 9مارچ کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے کی گئی اپنی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروا سکیں۔ گھر سے نکلتے ہی انہیں باوردی پولیس اہلکاروں کی مزاحمت کا سامنا تھا۔
کچھ دور چلنے کے بعد ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ ایک باوردی شخص نے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور دھکے دیے۔ موقع پر موجود اخبارات کے فوٹو گرافرز نے اس خاص لمحے کو اپنے کیمروں کی آنکھ سے محفوظ کر کے تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ اگلے دن اخبارات میں چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑنے اور دھکے دینے کی تصویر شائع ہوئی تو ملک میں پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف تحریک نے جان پکڑ لی۔
کچھ عرصہ بعد افتخار چوہدری بحال ہوئے تو انہی کے ہم نام انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس افتخار چوہدری، ایس پی پولیس جمیل ہاشمی، انسپکٹر الفت کاظمی اور دیگر کے خلاف اوپر درج تیرہ مارچ کے واقعے کی روشنی میں توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ تحقیقات کے دوران اس وقت تھانہ سیکرٹریٹ کے اس وقت کے ایس ایچ او رخسار مہدی نے انکشاف کیا کہ جناب آپ ہمیں خواہ مخواہ قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔
ہمارے افسران بھی مجبور ہیں۔ 13مارچ کو چیف جسٹس افتخارچوہدری کوروکنے والے پولیس ملازمین نہیں بلکہ کچھ اور لوگ تھے جنہوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ اس اہم بیان پر کسی نے کان دھرے نہ اس سمت میں تحقیقات کرائی گئیں تاہم تمام پولیس اہلکاروں کو سزا سنا دی گئی۔
پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں 2مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی سیلز نے اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی تو اس اہم واقعے کی رپورٹنگ کے لیے میں بھی ایبٹ آباد پہنچ گیا۔ جہاں اس وقت علاقے کا نذیر خان نامی ایس ایچ او بھی موجود تھا، نذیر خان سے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ واقعے کے فوری بعد موقع پر پہنچنے والے پہلے چند افراد میں شامل تھا۔
وہ گپ شپ کے انداز میں میرے سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح طور پر پریشان تھا۔ اس کی پریشانی بھانپتے ہوئے میں نے پوچھ لیا کہ جناب آپ پریشان کیوں ہیں؟ ایس ایچ او نے تاریخی جواب دیا۔ بولا جناب یہ واقعہ میرے علاقے میں رونما ہوا ہے۔ امریکی صدر اوباما نے اس پر پریس کانفرنس بھی کی ہے۔
مجھے اور تو کسی کا پتا نہیں اتنا ضرور پتا ہے کہ اب کسی اور کے خلاف کارروائی ہو نہ ہو، میں ضرور معطل کر دیا جائوں گا۔ اس برجستہ جواب پر میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ جناب پریشان نہ ہوں اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ بضد رہا کہ جناب آپ کو پتا نہیں نزلہ کمزوروں پر ہی گرتا ہے۔
بعد میں اس واقعے پر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی بنا مگر آج تک کسی ایک ذمہ دار کو سزا نہ ملی تاہم ایک عرصہ تک متعلقہ ایس ایچ او پیشیاں ضرور بھگتتا رہا۔
نون لیگ کا دور آیا تو اسلام آباد میں کیے جانے والے دھرنوں سے نمٹنے کے لیے پھر پولیس کی ضرورت پڑی۔ پولیس کے بعض افسران نے دیکھ لیا کہ دھرنوں میں ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف اور طاقتور لوگ لہٰذا ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی طرح کچلے جانے کے بجائے پتلی گلی سے نکلنا ہی بہترہے۔ کچھ افسران نے حکومت سے معذرت کرلی۔
لیکن اس وقت کے آئی جی پولیس طاہرعالم خان اور قائم مقام ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو نے اپنے پولیس اہلکاروں کی مدد سے دھرنے میں شامل بلوائیوں کا خوب مقابلہ کیا۔ جونیجو تو بلوائیوں کے ہاتھوں شدید زخمی بھی ہوئے۔ دھرنا ختم ہوا تو وزیرداخلہ چوہدری نثار نے پولیس افسران پر انعامات کی بارش کی۔ انعامات دیتے ہوئے اپنے اسٹاف کے افسران کو بھی خوب نوازا لیکن لاٹھیاں کھانے والے جونیجو کو انعام تو کجا اس کی تعریف میں دو لفظ نہ بولے۔
ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں کس طرح طاقتور ترین لوگ ضرورت پڑنے پر پولیس اور اس کی وردیاں بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اسامہ بن لادن برآمد ہو جائے تو پولیس والے اس کی پیشیاں بھی بھگتتے ہیں۔ پولیس آئین پاکستان اور جمہوری نظام کا ساتھ دے تو سیاسی جماعتیں انہیں اپنی پسند ناپسند کی بھینٹ بھی چڑھا دیتی ہیں مگر حکمران فوجی ڈکٹیٹر ہو یا منتخب جمہوری سیاستدان کوئی بھی پولیس نظام کو مالی و انتظامی طور پر خودمختار اور مداخلت سے پاک ادارہ بننے نہیں دیتا۔
دارالحکومت اسلام آباد ہو یا ملک کے کسی بھی صوبے کا کوئی ضلع، ہر جگہ اکثر تھانے محرومیوں اور کرپشن کی کھلی داستان بن چکے ہیں۔ اضلاع میں اکثر پولیس افسران تھانوں کو بجٹ ہی فراہم نہیں کرتے۔ تھانوں کے پاس اپنی سرکاری گاڑیوں کے لیے مناسب پٹرول ہوتا ہے نہ تفتیش کے لیے پیسے۔ ظاہر ہے وہ ان ’’انتظامات‘‘ کا بوجھ اپنے جونیئر سب انسپکٹرز، اے ایس آئیز اور کانسٹیبلز کے ذریعے عوام کی جیب پر ہی ڈالتا ہے۔
یوں پورا سسٹم پولیس کو کرپشن پر مجبورکرتا ہے۔اس سب کے باوجود محکمہ پولیس میں شیخ آباد ٹنل مانسہرہ پر ایمانداری سے ڈیوٹی انجام دینے والے اورنگزیب خان جیسے پولیس اہلکاربھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے اہلکار کسی سے بدتمیزی کرتے ہیں نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ۔
وہ نہیں دیکھتے کہ سامنے کس کی بیوی ہے( اچھی بات یہ ہے کہ کسی کی بیوی کہہ کر بد تمیزی کرنے والے واقعہ کا نوٹس لے لیا گیا ہے) ، کوئی سرکاری افسرہے جج یا صحافی، وہ صرف اپنا کام کرتے ہیں، یہ سب جانتے ہوئے کہ وقت آنے پر نزلہ تو کمزوروں پر ہی گرتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر