وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کرونا (کرونا) کے خلاف لڑائی میں لاک ڈاؤن کے خلاف عمران خان کا مستقل مزاجی سے قائم بیانیہ جیت گیا ہے۔ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے، ملک بھر میں وسط مارچ سے قائم ڈھیلا ڈھالا، لولا لنگڑا نام نہاد لاک ڈاؤن اٹھایا جا چکا ہو گا۔
عمران خان تو بظاہر بیانیے کی جنگ جیت گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں اب کرونا جیت جائے گا؟ اگر اس کا جواب بھی بھی اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب ہار گئے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ماسوائے ریلوے اور ہوابازی کے، اکثر کاروبار کھول دیے جائیں گے۔ یہ سب ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد اور کرونا کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جمعے کی سہ پہر تک پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد 611 تک اور مریضوں کی تعداد 27 ہزار کو پہنچنے والی تھی۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ مئی اور جون کا مہینہ پاکستان میں کرونا کی وبا کی موجودہ لہر کا نقطۂ عروج ہو گا۔
پاکستان میں تفتان، رائےونڈ کی مجرمانہ غفلت اور دنیا بھر سے بغیر سکریننگ، ٹیسٹنگ اور قطرینہ کے ہزاروں افراد کے لائے جانے کے بعد کرونا کے عمودی فروغ کے بعد اب موثر لاک ڈاؤن اور ٹریسنگ، ٹیسٹنگ اور ٹریٹمینٹ کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے اب کرونا کی مقامی افزائش بھرپور طور ہو چکی ہے۔ لوگوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے کرونا بڑے پیمانے پر پھیلا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بارے میں متضاد بیان بازی نے کرونا کی روک تھام کو ناممکن بنا دیا ہے اور جمعرات کو جب لاک ڈاؤن کو جس طرح سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے نتائج آپ کو اگلے ہفتے سے واضح طور پر نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
لاک ڈاؤن کے باوجود اب تک کے اعداد و شمار یہ بتا رہے تھے کہ دس دنوں کے اندر مریضوں کی تعداد اور بارہ دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد دوگنی ہو رہی تھی۔ اب جبکہ لاک ڈاؤن اٹھا دیا گیا ہے اور کرونا کے تیزی سے پھلنے پھولنے والی پر ہجوم جگہوں جنہیں ماہرین ’ہاٹ سپاٹ‘ کا نام دے رہے ہیں، تشکیل پا چکے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ کیا لاک ڈاؤن مکمل طور پر اٹھنے کے بعد متاثر شدہ افراد کے لوگوں سے ملنے جلنے کے بعد بھی کرونا متاثرین کے بڑھنے کی پرانی رفتار برقرار رہے گی، ایسا سوال ہے جس کا جواب خاصا پریشان کن ہو سکتا ہے۔
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ملک بھر میں ٹیسٹنگ کی تعداد اسد عمر کے بلند و بالا دعووں کے برعکس کچھوے کی رفتار سے رینگ رہی ہے۔
22 کروڑ کی آبادی میں پاکستان نے ابھی تک اپنی آبادی کے ایک فیصد شہریوں کو بھی ٹیسٹ نہیں کیا۔ ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ڈھائی لاکھ کے قریب افراد کو ٹیسٹ کیا گیا ہے جو آبادی کا 0.125 فیصد بنتے ہیں۔ کیونکہ اکثر مریضوں میں تو چار پانچ دن تک مرض کی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتیں اس لیے بغیر ٹیسٹ کے یہ افراد باقی شہریوں کو دھڑلے کے ساتھ بیمار کرتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں کو پتہ چل بھی جائے کہ وہ کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں وہ سماجی بدنامی اور لوگوں کے رد عمل کے خوف سے اسے چھپا رہے ہیں اور اس طرح اس مرض کو بڑھاوا دینے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
فیصلہ تو کر لیا گیا لیکن اس کے اثرات اور نتائج کی ذمہ داری سب پر عائد ہو گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سب سے زیادہ ذمہ داری عمران خان اور ان کی جماعت پر آئے گی لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں فیصلہ سازی صرف اسلام آباد میں نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ جو لولا لنگڑا لاک ڈاؤن دو ماہ تک اس ملک میں قائم رہا وہ بھی نہ صرف عمران خان کی مرضی اور منشا کے خلاف لگایا گیا بلکہ عمران خان اور ان کی جماعت کے کلیدی افراد مسلسل اس لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے۔ اب جبکہ یہ لاک ڈاؤن اٹھا لیا گیا ہے تو اس کے نتائج کی ذمہ داری ان تمام لوگوں پر عائد ہوگی جو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں ہو روز بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں۔
اب اگلے ہفتے کے بعد جب نئے اعداد و شمار آئیں گے تو ہمیں پتہ چلے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جن کا نظام صحت کرونا جیسی ہلاکت خیز بیماری کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ جو ملک اپنی کل پیداوار کا صرف 2.8 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہو اور جہاں دس ہزار مریضوں کے لیے دس ڈاکٹر بھی موجود نہ ہوں وہ اس وبا کا مقابلہ کیسے کرے گا؟
سب سے زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پالیسی کو غریب عوام کی حامی پالیسی بیان کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت نے احساس پروگرام کے تحت لوگوں میں تقسیم کی جانے والی رقم کے غلط اعداد و شمار پیش کیے اور اس میں گندم کی خریداری اور ٹیکس ریفنڈ کی رقم بھی شامل کر دی دوسری طرف بڑے سرمایہ داروں اور بڑے تجارتی اداروں کو دی جانی والی چھوٹ اورریئل اسٹیٹ کو دی جانی والی رعایت کا ذکر نہ کیا۔ اب بغیر بڑے پیمانے کے ٹیسٹ اور قرنطینہ کے ملک کھولنے کا واحد مقصد اس کاروباری طبقے کے معاشی پہیے کو پھر سے چلانا ہے اور اس میں ان لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں کی ہرگز پرواہ نہیں کی گئی ہے جنہیں کرونا کے رحم وکرم پر چھوڑا جا رہا ہے۔
ملک کے اندر یقینآ اتنی دولت موجود ہے کہ ایک دو ماہ کے لیے ان غریب لوگوں کو سہارا دیا جا سکے اور انہیں اداروں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کر کے اس وبا کو پھیلنے سے روکا جائے لیکن یہ نہیں کیا گیا۔
جمعرات کو فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی تقریر میں مستقبل کے تمام نتائج کا بوجھ اپنے سر سے اتار کر اس بدقسمت قوم کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستانی قوم کا جرمن قوم سے موازنہ کیا اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے اپنی گفتگو کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن سرسری اور سطحی معلومات رکھنے والے فرد کو بھی پتہ ہے کہ یہ موازنہ بالکل بے معنی ہے۔ جرمنی نے وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کر کے پہلے ہی اپنے بیمار لوگوں کو صحتمند لوگوں سے الگ کر لیا تھا اور اپنی روایتی تعلیم، ڈسپلن، طبی سہولیات اور آگہی کے بل پر کرونا کا نقطہ عروج کامیابی سے پار کر لیا ہے اور اس کے بعد مخصوص شعبوں میں لاک ڈاؤن کو ہٹانے کا عمل شروع کیا ہے۔ یہاں کے حالات کا جرمنی کے حالات سے کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔
ایک طرف عمران خان خود کرونا کے بارے میں ٹرمپ کی طرح متضاد بیانات دیتے رہے ہیں، ان کی اپنی جماعت کے سرکردہ افراد بھی ان کے ساتھ سر میں سر ملاتے رہے ہیں، دوسری طرف مذہبی گروہوں کی طرف سے غیر سائنسی رویوں نے معاملے کو مذید خراب کیا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا کی بدحالی نے پوری کی ہے۔ ایسے میں عوام کی آگاہی کون کرے۔
حکومت عوام کی آگاہی کی بجائے میڈیا کے تنقیدی آوازوں کو دبانے، ٹرول بریگیڈ پالنے اور سیاسی مخالفین کو مختلف ریاستی اداروں کے ذریعے فتح کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایسے وقت جب تمام قومی قیادت کو ملک کر کرونا کا مقابلہ کرنا تھا، عمران سرکار سندھ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی میں ابھی تک مصروف ہے۔ صوبے کے گورنر جو خود کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، آئے دن الٹے سیدھے بیانات دینے اور صوبائی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ وہ حالات نہیں ہیں جن میں لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ لوگوں کو ڈنڈے کی مدد سے ڈسپلن نہیں کر سکتے اور لوگ خود خیال کریں، قابل عمل نہیں ہے اور اس سے موثر قیادت کی کوئی خوشبو محسوس نہیں ہوتی۔ ریاست جب کسی معاملے کو اہم سمجھتی ہے تو اس پر اپنی رٹ منواتی ہے۔ لوگوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا جاتا۔
اگر لوگ اپنے طور پر نظم و نسق برقرار رکھتے تو ممالک کو پولیس رکھنے کی ضرور پیش نہ آتی، نہ ٹریفک کے جرمانے ہوتے اور نہ ٹریفک سگنل اور نہ رفتار کی حد مقرر ہوتی۔ لوگ خود ہی اپنا نفع نقصان دیکھ کر اپنے فیصلے کرتے۔ جس ملک میں پانی سبیلوں پر ٹنگے لوہے کے پیالے زنجیر سے بندھے ہوئے ہوں اور مسجدوں سے جوتیاں چوری ہو جاتی ہوں وہاں لوگ کرونا سے متعلق حفاظتی اقدامات خود ہی کرلیں گے کوئی عقلمندانہ خواہش نہیں ہے۔
جمعرات کو کیے گئے فیصلے پنجابی زبان کی کہاوت کہ جاگدے رہنا تے ساڈے تے نہ رہنا، یعنی جاگتے رہنا اور ہمارے آسرے پر نہ رہنا کے مترادف ہے۔ ریاست اور رہنما لوگوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔ وہ مستقبل کی پیش بندی کرتے ہیں اور مسقبل کا راستہ دکھاتے ہیں۔
جمعرات کو لاک ڈاؤن کھولنے جو جوا کھیلا گیا ہے اس کے نتائج جلد ہی سامنے آ جائیں گے۔ اکثر ماہرین اس کے منفی نتائج سے خبردار کرتے رہے ہیں۔ اب ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کی عمران خان سرکار جوے کا یہ داؤ جیت جائیں اور ماہرین کے خدشات غلط ثابت ہوں ورنہ اس کے نتائج کی ذمہ داری ان تمام افراد اور اداروں پر عائد ہو گی جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر