پاکستان کا میڈیا نہ صرف شدید دباؤ کا شکار ہے بلکہ بے حد خوف زدہ بھی ہے۔ تقریباً تمام صحافی کم حوصلہ ہیں یا مصلحت کا شکار۔
مالکان کو صرف اپنا ریونیو عزیز ہے۔ نیوز منیجرز اور ایڈیٹرز کو اپنی بھاری تنخواہوں سے غرض ہے۔ اینکرز کو اپنی شہرت اور اسٹیٹس بلند کرنے کی فکر ہے۔ ان سب کو اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ جعلی صحافیوں کا بھی سامنا ہے جنھیں ملازمتوں سے نکالا نہیں جاسکتا، جو مسلسل جھوٹ بولتے ہیں اور ہمیشہ اسکرین پر موجود رہتے ہیں۔
پوری برادری میں آٹھ دس ہی ایسے صحافی ہوں گے جنھیں پورے سچ کا علم ہے اور وہ اسے لکھ بھی سکتے ہیں۔ لیکن انھیں کوئی بلا کم و کاست چھاپنے یا بے روک ٹوک بولنے کے مواقع دینے کو تیار نہیں۔
صحافتی تنظیمیں ڈھکوسلا ہیں اور ان کے رہنما ذاتی مفادات کے اسیر۔ چند افراد نے اپنے عہدوں کی خاطر پوری برادری کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ موجودہ کارکردگی، جو دراصل کوئی کارکردگی نہیں، کو دیکھتے ہوئے ماضی کی جدوجہد کی باتیں افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔
پاکستان کے میڈیا کو جو مسائل درپیش ہیں، ان کے خاتمے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ ان مسائل کی وجہ جو مقتدر طبقہ ہے، وہ انتظامیہ، خزانے اور میڈیا کو کبھی آزاد نہیں کرنا چاہے گا۔ اس کے لیے انقلاب لانا پڑے گا۔
انقلاب کے لیے عوامی شعور بڑھانے کی تحریک درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے صحافیوں، ادیبوں شاعروں اور اساتذہ کا جرات مند ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی انقلاب قیامت تک آنا ممکن نہیں۔
انقلاب کے لیے عوامی شعور بڑھانے کی تحریک درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے صحافیوں، ادیبوں شاعروں اور اساتذہ کا جرات مند ہونا ضروری ہے۔ پاکستان
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
منٹو کے افسانے، ٹائپنگ اسپیڈ کا امریکہ میں ٹیسٹ ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی
پسماندہ ملکوں کی ورکنگ کلاس ۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی