نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گڑانگ یا پڑانگ ۔۔۔ گلزار احمد

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے گھروں کی چھوٹی پھولوں کی کیاریوں اور گملوں میں بھی سبزیاں اور اناج کاشت کرنا پڑے گا

پشتو کا ایک محاورہ ہیکہ یو طرف تہ گڑانگ دے اور بل طرف تا پڑانگ جس کا مطلب ہے ایک طرف کھائی یا گڑھا ہے اور دوسری جانب شیر کھڑا ہے۔جدھر رخ کرتا ہوں جان کاخطرہ ہی خطرہ ہے ۔آج کرونا وائیرس نے ہمارا یہ حشر کر رکھا ہے۔اگر گھر سے باہر جاتے ہیں تو وائیرس چمٹنے کا خطرہ گھر بیٹھیں تو روزی روٹی کا مسئلہ ۔تاریخ نے آج تک اس قسم کی مصیبت نہیں دیکھی ۔پہلے کسی ایک خطے یا علاقے میں آفت آتی تو اس کی وجہ سیلاب۔خشک سالی۔مکڑی۔زلزلے یا اور کوئی بیماری ہوتی اور باقی دنیا کے لوگ اور ملک ملکر ان کی مدد کو پہنچتے لیکن اب ایسا بھی ممکن نہیں رہا۔ ساری دنیا لاک ڈاون ہے۔ دنیا کی ائیرلائین کمپنیاں تباہ ہو گئیں۔ہوائی جہاز ہوائی اڈوں پر کھڑے ہیں۔

ریلیں بسیں بند کھڑی ہیں بس ایک سلوگن ہے stay home ۔سیاحت جو دنیا کی کمائی کا بڑا ذریعہ تھی برباد ہو گئی۔کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گیے۔تیل پیدا کرنے والوں کی دولت زمین بوس ہو گئی۔سمندر پار ورکرز جو اپنے ملکوں کو زر مبادلہ بھیجتے تھے در بدر ہو گیے۔دھاڑی دار رل گئے۔ دنیا کے فوڈ سیکورٹی کے ماہریں خوراک کی قلت کے شکار لوگوں کا تخمینہ جو کرونا سے پہلے 13 کروڑ لگا رہے تھے اب 26 کروڑ تک لگا رہے ہیں ۔آج آپ کے پاس زرخیز زمین ہے ۔پانی ہے کھاد ہے مشینری ہے لیکن آپ لاک ڈاون میں ہیں۔ کھیت کون کاشت کرے ۔ٹریکٹر کون چلائے فصلوں کو پانی کون دے۔ دنیا کی بڑی معیشتیں کساد بازاری کا شکار ہیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم خوراک اور زرعی اشیا میں خود کفیل ہیں ۔گندم کی فصل تیار کھڑی ہے جس کی پیداوار کا اندازہ ڈھائی سے تین کروڑ ٹن لگایا گیا تھا ۔

لیکن ابھی حکومت نے زراعت کی طرف مکمل توجہ نہیں دی۔ اگرچہ وزیراعظم نے گندم کی سمگلنگ روکنے کے لیے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایسے فیصلے ہر سال ہوتے ہیں سمگلر اتنے با اثر ہیں کہ ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔اب جبکہ ہماری گندم کے ریٹ کم اور دوسرے ملکوں میں زیادہ ہونگے تو کیا کچھ نہیں ہو گا۔ ہماری بیوروکریسی بھی غلط اعداد و شمار دیتی ہے اور چونکہ آج تک کسی کو عبرت ناک سزا نہیں ملی اس لیے رشوت ۔کرپشن۔خرد برد کا کاروبار جاری رہتا ہے۔ کرپٹ مافیا ہمیشہ قوم کو مصیبت میں ڈال کر پیسہ کماتا ہے اور جائیدادیں۔فیکٹریاں پلازے بناتا ہے اس لیے اس قیامت صغرا کا اس کو ذرہ بھی احساس نہیں ہوگا۔ ابھی پاور سیکٹر کی رپورٹ سامنے آئی تو پتہ چلا قوم کو 4800 ارب کا ٹیکہ لگا دیا گیا اور قوم مسلسل 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ برداشت کر رہی ہے اور ناجائیز جر مانے بھی غریبوں پر ڈالے جاتے ہیں۔ شوگر مافیا کا کھیل بھی سامنے آ چکا مگر سو سال انکوایریاں ہوتی رہینگی اور آخر میں لوٹ مار کرنے والوں کا مسکن کوئی ترقی یافتہ ملک بنے گا جہاں انہوں نے اربوں کے محلات بنائے ہونگے۔

بات شروع ہوئی تھی زراعت سے تو عرض یہ کرنا ہے زراعت کے شعبے پر کرونا سے زیادہ ایمرجنسی کی ضرورت آن پڑی ہے ۔ایک تو فصلوں اور اناج کو محفوظ کرنا ہے یہ نہ ہو کہ سرکاری گوداموں سے گندم کی بجائے مٹی سے بھری بوریاں برآمد ہوں۔ پچھلے سال آٹے کے بحران سے کچھ سبق سیکھا ہو گا۔ادھر تھر چولستان اور بلوچستان سے پھر مکڑی کی پیدائش کی اطلاعات ملی ہیں۔محکمہ زراعت نے گزشتہ مکڑی کا حملہ کامیابی سے پسپا کیا مگر وہ فصلوں میں داخل ہو چکی تھی اب اس کو اس کی پیدائیش کی جگہ صحرا میں ختم کرنا ہے۔ کرونا وائیرس کا خطرہ جلد ٹلنے والا نہیں اب اس کے ساتھ ہمیں زندہ رہنا ہے آخر ڈاکٹر پولیس فوج بھی تو فرنٹ لائین پر مقابلہ کر رہی ہے اسی طرح کسانوں اور زرعی ماہرین کو بھی میدان میں اترنا پڑے گا کیونکہ خریف کی فصل کی کاشت کا وقت قریب ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے گھروں کی چھوٹی پھولوں کی کیاریوں اور گملوں میں بھی سبزیاں اور اناج کاشت کرنا پڑے گا اس سلسلے میں زرعی ماہرین مشورے دینا شروع کر دیں ۔ یاد رکھیں مستقبل میں دنیا کو کرونا سے زیادہ قحط سے خطرہ ہے۔پاکستان بہتر منصوبہ بندی کر کے نہ صرف اپنے عوام بلکہ بہت سے ملکوں کو قحط سے بچا سکتا ہے اس کے لیے ابھی سے کام شروع کرنا پڑے گا۔ افغانستان کا 40% غلہ پاکستان سے جاتا ہے اس دفعہ ایران میں بھی تیل کرائسس اور کرونا کی وجہ سے غلے کی بڑی شارٹیج کا خطرہ ہے ۔حکومت ہر پہلو پر غور کرے اور علیحدہ علیحدہ محاذ پر جنگی بنیادوں پر کام کرے۔

قوم کے لیڈر بھی دیوار پر لکھی تحریریں پڑھیں اور قوم میں اتحاد اور یگانگت پیدا کریں۔اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہمارا ملک اجناس میں خود کفیل ہے ورنہ سونا چاندی ہیرے جواہرات کے ڈھیر بھی ہوتے تو ہم کھا تو نہیں سکتے تھے۔ یہ رمضان المبارک صرف اللہ کا شکر ادا کرتے گزاریں جس نے ہمیں اتنا پیارا وسائیل سے بھرا پاکستان عطا کیا اور وہ بھی رمضان المبارک کی 27ویں کی رات میں۔اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ہم نے گڑانگ یا کھائی میں نہیں گرنا بلکہ پڑانگ یا شیر یعنی کرونا وائیرس کے منہ پر مکا مار کے اسے شکست دینی ہے ان شا اللہ۔۔

About The Author