نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چار نئے عہد ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

رمضان کا مہینہ آ پہنچا، ہم خوش نصیب ہیں کہ زندگی میں ایک اور رمضان کی برکات، رحمتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

پچھلے تین چار برسوں سے رمضان کی آمد پر رمضان ریزولوشن کے عنوان سے کالم لکھتا ہوں۔ مقصد یہی کہ رمضان کے مہینے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جا سکے اور ان بابرکت ایام میں وہ کمٹمنٹ اور عہد کئے جائیں جو آگے جا کر پورا سال نفع دے سکیں۔ مختلف آئیڈیا ذہن میں آتے رہے، کچھ نیٹ پرتلاش کرنے سے رہنمائی ملی ، یوں ہر بار ان آئیڈیاز کو اپنے قارئین سے شیئر کیا۔یہ سوچ دامن گیر ہوتی ہے کہ اس آئیڈئے پر کسی ایک نے بھی عمل کیا تو اسے نفع پہنچنے کے ساتھ ہمارا بھی کام بن جائے گا۔ رمضان ریوزولوشن کے اس آئیڈیے پر لکھنے میں ایک دقت ہے کہ دو چار برسوں بعد اس میں یکسانیت آ جاتی ہے۔انسان فطرتاً تنوع اور تبدیلی کو پسند کرتا ہے۔ ایک جیسی چیز خواہ کس قدر اچھی اور اعلیٰ ہو، وہ کشش کھو بیٹھتی ہے۔ اس باررمضان ریزولوشن کے حوالے سے سرچ کر رہا تھا کہ ایک امریکی سکالر کے بہت دلچسپ اور معلوماتی مشوروں سے روشناس ہوا۔ یہ فلسطینی نژاد مسلمان سکالر شیخ عمر سلیمان ہیں۔شیخ عمر سلیمان نوجوان سکالر ، سوشل ایکٹوسٹ اور نہایت متحرک شخصیت ہیں۔کئی اہم امریکی جرائد اور چینلز پر ان کی آرا آتی رہتی ہیں، وہ یقین انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک ریسرچ کے سربراہ ہیں اور کئی اہم مسلم اداروں کے ساتھ منسلک ہیں۔ شیخ عمر سلیمان نے رمضان کے تیس دنوں کے حساب سے اپنے عہد یا کمٹمنٹ تشکیل دئیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا خلاصہ قارئین سے شیئر کرتا ہوں۔
صلح یا تجدید تعلق۔ شیخ عمر سلیمان نے پہلے روزے کی کمٹمنٹ یہی قرار دی کہ اگرکسی مسلمان کی کی دوسرے مسلمان سے خفگی، برہمی یا قطع تعلق کا معاملہ چل رہا ہے تو اسے ختم کرتے ہوئے صلح کر لے۔ انہوں نے ابو داﺅد کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جس کا مفہوم ہے کہ اگر کسی مسلمان نے دوسرے سے تین دنوں سے زیادہ قطع تعلق کر رکھا ہے اور وہ اس دوران مر جاتا ہے تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے۔ایک اور حدیث کا حوالہ دیا گیا کہ پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ مشرک کے سواہر ایک کو معافی دیتے ہیں، سوائے ان کے جن کی آپس میںدشمنی ہو۔ فرمایا جاتا ہے( معافی ) التوا میں رکھو، حتیٰ کہ یہ آپس میں صلح کر لیں۔
شیخ عمر سلیمان نے یہ استدلال دیا کہ پیر اور جمعرات والی بات تو عام دنوں کے لئے ہے جبکہ رمضان میں تو ہر روز ہی معافی اور مغفرت کا معاملہ ہے ، رب کریم کی رحمت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہوگی کہ کسی مسلمان کی مغفرت کو صرف اس لئے التوا میں ڈال دیا جائے کہ اس کی کسی دوسرے مسلمان سے ناراضی چل رہی ہے۔اس کے پیچھے نکتہ یہی ہے کہ آپ کو معافی کیوں دی جائے جبکہ آپ میں کسی دوسرے کو معاف کرنے کا جذبہ نہیں۔شیخ عمر سلیمان نے نہایت کارآمدمشورہ دیا کہ پہلے رمضان کو ہی آپ ہمت کر کے اس شخص کو معاف کریں جس نے آپ کا دل دکھایا یا آپ کی جس کے ساتھ علیحدگی ہوچکی،بول چال بند ہے اور سوشل بائیکاٹ چل رہا ہے۔ اسے معذرت کی ای میل یا ٹیکسٹ میسج کر دیں، واٹس ایپ وائس میسج بھیج سکتے ہیں۔اس شخص کے لئے نہیں، اپنے لئے اور اپنے رب کے لئے اس سے صلح کر لیں اور یوں رمضان کی رحمتوں اور مغفرت کے مواقع سے مستفید ہوں۔
شیخ عمر سلیمان کا دوسرا عہد /مشورہ یہ ہے کہ اپنی نمازیں وقت پر ادا کرنے کی کمنٹمنٹ کر لی جائے۔ انہوں نے بخاری اور نسائی کی حدیث کا حوالہ دیا ،جس کا مفہوم ہے کہ وقت پر نمازیں پڑھنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ رب تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اس حوالے سے بھی تنقید کی کہ انہوں نے عبادت میں تاخیر کرنا شروع کر دی۔ظاہر ہے بہترین شکل تو مسجد میںجماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہے، مگر جسے یہ سہولت دستیاب نہیں یا جیسے آج کے حالات میں گھر پڑھنے کی رخصت موجود ہے، اس طرح کے حالات میں عمر سلیمان کی کمٹمنٹ کے مطابق ظہر، عصر اور عشاکی نماز آذان کے ایک گھنٹے کے اندر جب کہ فجر اور مغرب آزان کے آدھے گھنٹے کے اندر پڑھ لی جائے۔ مغرب کو جلدی پڑھنے کا حکم ہے جبکہ عشا میں کچھ تاخیر کی جا سکتی ہے، مگر رمضان میں اوقات نماز کی یہ پابندی بعد میں سال بھر کے لئے ڈسپلن پیدا کر سکتی ہے۔
تیسری کمٹمنٹ سنت نمازوں کے حوالے سے ہے۔ شیخ عمر سلیمان نے ایک حدیث کاحوالہ دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے بارہ رکعات سنت پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں مکان بنائیں گے،چار سنت نماز ظہر سے پہلے جبکہ دو سنت ظہر کے فرضوں کے بعد، دو سنت نماز فجر سے پہلے، دو سنت نماز مغرب (فرض)کے بعد اوراسی طرح دو سنت نماز عشا (فرض)کے بعد۔یہ سنتیں ہماری فرض عبادات کی ایک طرح سے محافظ ہیں۔ عام دنوں میں یہ سنتیں پڑھنے میں کوتاہی، سستی ہوجاتی ہے۔ رمضان ایک بہت اچھا موقعہ ہے کہ ان سنتوں کو پڑھنے کی عادت ڈال دی جائے۔( یاد رہے کہ میں سنت موکدہ، غیر موکدہ کی بحث چھیڑ ہی نہیں رہا کہ امریکی سکالر کے بلاگز میں یہ نہیں ، ویسے اس نے سنت موکدہ ہی کی تاکید کی ۔)
چوتھی کمٹمنٹ بہت خوبصورت اور دل کو چھونے والی ہے۔ شیخ عمر سلیمان نے مسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیا، مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کی عدم موجودگی میں اس کے لئے کی گئی دعا کا جواب لازمی آتا ہے،جب بھی وہ اپنے مسلمان بھائی کے خیر کے لئے دعامانگتا ہے ، ایک فرشتہ اس پر آمین کے ساتھ کہتا ہے کہ تمہارے لئے بھی یہ ہو جائے۔
افطار کے وقت دعاﺅں کی بہت فضیلت ہے اور یہ قبول دعا کے اوقات ہیں، اس لئے اس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دعا مانگیں۔خاص طورپر اس کے لئے جو آپ کی جانب سے دعا کی توقع بھی نہیں رکھتا۔اسے بتائے بغیر اس کے لئے پورے خلوص سے دعائیں مانگیں، یہ خالص اور صرف اللہ کے لئے ہو جائیں گی۔دعا کو جامع اور ہمہ پہلو بنائیں تاکہ رب تعالیٰ آپ کے حق میں بھی وہ تمام چیزیں قبول فرمائے۔ کسی کو بیماری ہے تو اس کے لئے شفا کی دعا مانگیں،کوئی اچھا انسان ہے مگر ایمان کی دولت سے محروم ہے تو اس کے ایمان اور ہدایت کے لئے دعا مانگیں، مالی تنگی کے شکار کے لئے رزق کی کشادگی مانگیں،کوئی اعلانیہ فسق وفجور کرتا ہے تواس کی ہدایت کے لئے دعامانگیں۔کسی پر اللہ کی کوئی خاص رحمت جاری ہے تو اس کے لئے دعا مانگیں کہ یہ رحمت اس پر ہمیشہ جاری رہے ۔ ایسا کرنے سے رب کریم سے امید رکھیں کہ وہ وہی رحمت آپ کے لئے بھی جاری فرما دیں گے۔
دوسروں کے لئے دعا کے حوالے سے مشہور صوفی بزرگ اور ہمارے قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی بات یاد آئی۔شاہ صاحب کہتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ رب کریم آپ کے لئے رزق میں بے پناہ اضافہ کرے تو جب دعا مانگنے بیٹھیں، اپنے دشمنوں کے لئے خلوص دعا سے دعا مانگیں، اس شخص کے لئے دعا مانگیں جس نے آپ کا دل دکھایا اور تکلیف پہنچائی۔ خلوص نیت اور دل کی گہرائی سے یہ دعائیں مانگیں تب اس کا تو پتہ نہیں ، انشااللہ قدرے کے خزانے سے آپ کو اتنا رزق ملے گا کہ سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ “
رمضان کا مہینہ آ پہنچا، ہم خوش نصیب ہیں کہ زندگی میں ایک اور رمضان کی برکات، رحمتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اپنے مصروف شیڈول سے چند منٹ نکال کر کوشش کریں کہ رمضان کے حوالے سے یہ عہد اور کمٹمنٹ کر لیں۔ دل سے ارادہ کریں تو یقینا یہ اچھی عادتیں آپ کی زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔رب نے چاہا توایسی مزید کمٹمنٹ اور رمضان ریزولوشن پر بات ہوتی رہے گی۔

About The Author