گلزار احمد
ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیب و ثقافت کو سب سے بڑا جھٹکا 1947 کی تقسیم میں لگا۔ وجہ یہ تھی کہ شہر میں انڈیا کے امیر ترین اور تعلیم یافتہ ہندو یہاں رہتے تھے انہوں نے شہر میں تعلیم صحت تفریح اور کاروبار کو عروج تک پہنچایا ہوا تھا ۔
پورے ہندوستان میں بسیں چلانے والے مالک یہاں رہتے تھے۔ان ہندوٶں کے پاس کاریں تھیں ۔سو سال پہلے انہوں نے اپنے گھر کی چھتیں لنٹر ڈال کر بنائی تھیں جس کو تعمیر کرنے والے کاریگر بمبئی سے منگوائےجاتے تھے۔
ڈیرہ شہر کے ارد گرد ایک گرین بیلٹ تھا جس میں طرح طرح کے پھول اگائے جاتے اور اسی وجہ سے یہ شہر ’ڈیرہ پھلاں دا سہرا ‘کہلاتا تھا۔
شہر کی صفائی کا اعلی انتظام تھا اور اسکولوں کی تعلیم بھی معیاری تھی۔ شہر کی فصیل کے اندر سبزیوں کے کھیت تھے اور مٹھایاں تو ایسی انواع و اقسام کی بنائی جاتی تھیں جو پورے ہندوستان میں مشہور تھیں۔
ہندوٶں اورمسلمانوں کے درمیان دوستی اور محبت کا لازوال رشتہ تھا، امن اور خوشی کا دور تھا سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے اور زبان ایک سرائیکی تھی۔ ڈیرہ شر پھولوں کی مہک سے مزین رہتا تھا ۔
پارٹیشن کے بعد تمام ہندو انڈیا چلے گئے بہت سے ثقافت کے مشترکہ رنگ بھی ڈیرہ سے غائب ہو گئے۔جو دھندلے رنگ ہم بچپن میں دیکھ سکے وہ ہمارے دل پر نقش ہو گئے۔
ڈیرہ شہر ویسے تو کافی ڈویلپ تھا مگر دریائے سندھ پر پُل نہ ہونے کی وجہ سے الگ تھا۔جب سردیاں ہوتیں۔کشتیوں کا پُل بن جاتا تو دریا کے اندر کچے میں رہنےوالوں سے رابطے بحال ہوتے۔
ایک دفعہ ڈیرہ سے ایک بارات دُلہن لینے کچے کے علاقے پنج گرائیں گئی تو میرے بابا نے مجھے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
کچے کا علاقہ ریتلا ہے تو اونٹوں کو سجایا گیا۔ کچاوے رنگ برنگ کپڑوں سے سج گئے تو خوبصورت کپڑوں میں ملبوس عورتوں کو بٹھا دیا گیا۔
راستے میں اونٹوں کے گلوں کی ٹلیاں شور مچاتیں، کبھی ڈھول والے الگ رونق لگاتے ۔ میرا اونٹ پر بیٹھنے کا پہلا تجربہ تھا۔ بس جھولتا رہا۔ چار گھنٹے بعد کہیں بارات پہنچی تو اوسان بحال ہوئے۔
اونٹ سے اترنے کے بعد سب سے پہلا خیال کھانے کی چیز لینے کا آیا ۔بڑی مشکل سے ایک دکان ڈھونڈی ۔اس کے پاس بچوں کے لئے صرف ایک ایٹم تھا ۔۔مَرُونڈے۔۔۔۔
مرونڈے اصل میں مکئی کو گڑ میں تلنے کے بعد ایک بال کی شکل میں بنائے جاتے تھے۔ بہرحال مرونڈے بھی اس وقت بیکری کی پیسٹری لگی۔ دوسرے دن دُلہن لے کے پھر اونٹوں پر جھولتے واپس ہوئے۔ اور انگ انگ درد کرتا تھا۔
ڈیرہ شہر ایک فصیل کے اندر ایک کلو میٹر دائرے میں بند تھا جس میں کافی سہولتیں اور تعلیم تھی مگر پنجاب بلوچستان فاٹا تک پھیلے ضلع کے مختلف گاٶں کے قوس قزح کی طرح اپنے رنگ تھے۔ کٹے ہوئے دور دراز گاٶں اپنی رَسموں اور روایتوں میں سختی سے کاربند تھے۔ شادیوں کی تو اتنی رسمیں تھی کہ سر چکرا جاتا۔
ایک گاٶں میں دیکھا کہ جب چاول کی دیگ کو پکانے کے لئے چولھے پر رکھا گیا تو دیگ کی آگ جلانے کی مستقل رسم تھی۔
دو مخالف قطاروں میں دس دس بندے درخت کی شاخیں لے کھڑے ہو گئے۔ دولہا کی بہن نے ایک لکڑی پر کپڑا باندھ کر تیل ڈال کو آگ جلائی اور اسے وہ شعلہ کھڑے بندوں کی قطار کے درمیان سے گزار کر دیگ کے چولہے تک پہنچانا تھا جب وہ گزرتی لوگ درخت کی چھڑیاں مار کر شعلہ بُجھا دیتے اور خوب ہنستے۔
یہ سلسلہ دیر تک جاری رہتا آخر وہ لڑکی شعلہ دیگ کے نیچے پہچانے میں کامیاب ہو جاتی۔ اور یوں دیگیں پکانے کا عمل شروع ہو جاتا۔
گاٶں والے مہمان کی بڑی عزت کرتے تھے مجھے تازہ مکھن نکال کر مکئی کی روٹی ۔سرسوں کا ساگ اور اچار جب کھانے کو دیا گیا تو ان تمام چیزوں کا ذائقہ اور خوشبو اتنی دلربا تھی کہ دل و دماغ میں کُھب کے رہ گئی۔
اب زندگی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے مگر خلوص اور محبت کے دیئے ٹمٹما رھے ہیں۔ ترقی کی رفتار کو تو آگے بڑھنا ھے مگر خلوص اور محبت کے رنگین دھاگے ہم نے خود باندھنے ہیں ۔
گھروں میں ہر بندہ موبائیل فون پر سر رکھ کر نہ بیٹھے اس کو ایک گھنٹہ روزانہ بند کریں آپس میں بیٹھیں اور بات چیت کے پھولوں سے دل کی دنیا میں خوشبو پیدا کریں۔ ورنہ اکیلا پن آپ کو نگل جائیگا۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ