پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وائس آف امریکہ آزاد ادارہ نہیں بلکہ امریکی انتظامیہ کا ماؤتھ آرگن ہے۔
وائس آف امریکہ سے لائیو گفتگو کرتے ہوئے میرے ہم نام ڈان کے مبشر زیدی اور طلعت حسین جیسے سینئر سمجھ دار صحافی بھی اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔
امریکی قانون کے مطابق حکومت وائس آف امریکہ سے براہ راست رابطہ تک نہیں کرسکتی۔ دونوں کے درمیان فائروال قائم ہے۔
بے شک وائس آف امریکہ کے لیے رقم وفاقی بجٹ میں رکھی جاتی ہے لیکن وہ ادارہ خود تجویز کرتا ہے۔ کانگریس اس کی منظوری دیتی ہے۔
حکومت کچھ اڑچن پیدا کرسکتی ہے لیکن ڈکٹیٹ ہرگز نہیں کرواسکتی۔
وائس آف امریکہ سے ٹرمپ انتظامیہ کس قدر خوش ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو جمعہ کو وائٹ ہاؤس کا بیان پڑھ لیں جو خاص طور پر وائس آف امریکہ کے خلاف جاری کیا گیا۔
کچھ قصور مبشر بھائی کا بھی ہے۔ ایکسپریس جوائن کیا تو سلطان لاکھانی کو گرفتار کرلیا گیا۔
جیو میں شامل ہوئے تو چینل بار بار بند کیا گیا۔ بلکہ ابھی تک زیر عتاب ہے۔
وائس آف امریکہ آنے کے بعد ذرا اطمینان ہوا تھا لیکن ادھر بھی حکومت سے متھا لگ گیا ہے۔
خیر زیادہ فکر کی بات نہیں کیونکہ وائس آف امریکہ میں امینڈا بینٹ جیسی دبنگ باس ہیں جو صدر کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔
امینڈا نے 23 سال وال اسٹریٹ جرنل کے لیے رپورٹنگ کی ہے۔ چار اخبارات کی ایڈیٹر رہی ہیں۔ دو پلٹزر پرائز حاصل کرچکی ہیں۔ چھ کتابیں لکھی ہیں۔ اور ان میں سے ایک پر میرے لیے دستخط کیے ہیں۔
اچھا میاں ٹرمپ، ہم نے مشرف جیسے بدمعاش کو بھگتا، اس کے بعد ایک کائیاں کو نمٹایا، اس کے بعد ایک احمق کو برداشت کیا، اس کے بعد ایک غنڈے کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ تو ان کے مقابلے میں نیک آدمی ہیں۔ تھوڑا سا برا بھلا ہی کہہ سکتے ہیں۔ کہہ لیجیے۔ خوش رہیے۔
بے شک وائس آف امریکہ کے لیے رقم وفاقی بجٹ میں رکھی جاتی ہے لیکن وہ ادارہ خود تجویز کرتا ہے۔ کانگریس اس کی منظوری دیتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر