بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں طبی عملے کو کورونا وائرس کی حفاظتی کٹس فراہم نہ کئے جانے پر ڈاکٹرز اور معاون عملے نے احتجاج کیا، لاٹھیاں کھائیں، 24گھنٹے حوالات میں بسر کئے بالآخر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کر کے انہیں رہا اور ڈاکٹرز نے احتجاج ختم کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ طبی عملہ کو ضروری حفاظتی سامان بروقت فراہم کرنے کا دعویٰ کیوں کیا جاتا رہا؟ اور ڈاکٹروں کی گرفتاری کو صوبائی حکومت کے ترجمان غلط رنگ دے کر الیکٹرانک میڈیا پر بھاشن کیوں دیتے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت اور حوالات میں بند ڈاکٹرز کے درمیان تحریری معاہدہ تھانہ میں ہوا، دوسری طرف وزیراعلیٰ نے ٹویٹ فرما دیا کہ ڈاکٹرز بلیک میل کر رہے ہیں۔
اسی بلوچستان میں حالت یہ ہے کہ منگل کے روز کورونا وائرس کیخلاف حکمت عملی اقدامات ودیگر امور کیلئے جو صوبائی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی اس کے سربراہ صوبے کے چیف سیکرٹری ہیں۔
قانون ساز اداروں کے قواعد وضوابط اور اسمبلیوں کے کردار کی آئینی شقوں سے وزیراعلیٰ سمیت سارے لاعلم ہیں یا پھر محض ”اصلی سرکار“ کی خوشنودی عزیز ہے۔
حیرانی ہوتی ہے ان منتخب نمائندوں پر جنہیں یہ ہی معلوم نہیں کہ چیف سیکرٹری کا کوئی پارلیمانی کردار نہیں ہے۔
ضروری حفاظتی سامان بروقت بلکہ ابھی تک فراہم نہ کئے جانے کی شکایات ملک کے دیگر حصوں میں بھی سامنے آرہی ہیں۔
گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں ہمیں بین الاقوامی امدادوں میں سے حصہ نہیں ملا۔ سندھ کو شکایت ہے کہ وفاقی ادارے تعاون نہیں کرتے۔
خود وفاقی حکومت جو کل تک یہ دعوے کر رہی تھی کہ پسماندہ طبقات کی مدد کیلئے پروگرام وضع کر لیا گیا ہے، اب ہاتھ کھڑے کر کے کہہ رہی ہے کہ پسماندہ طبقات کی فہرستوں کے حوالے سے ڈپٹی کمشنروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا اس حوالے بیان ریکارڈ پر ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمرکل بھی یہ فرماتے ہوئے دیکھے گئے کہ کورونا کے مسئلہ پر احتیاط نہ کرنے والے برطانوی وزیراعظم کے معاملے کو سامنے رکھیں۔
ادھر اطلاعات یہ ہیں کہ لاک ڈاؤن14اپریل سے آگے بڑھے گا، مزید کچھ مخصوص یا یوں کہہ لیں ضروری کاروباری سہولتیں بعض شرائط کیساتھ دی جائیں گی۔
غالب امکان یہ ہے کہ لاک ڈاؤن 25اپریل تک بڑھانے کیلئے اتفاق رائے ہو چکا ہے، موجودہ لاک ڈاؤن کے خاتمے سے ایک آدھ دن قبل باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔
ان سطور کے لکھے جانے تک ملک میں کورونا سے متاثر مریضوں کی کل تعداد4050تک پہنچ چکی ہے،58افراد جان سے گئے جبکہ 429افراد شفایاب ہوئے۔
اعداد وشمار کے حوالے سے موجود تحفظات کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک دور نہیں کر پائیں۔
حفاظتی سامان کی نایابی اور عدم فراہمی کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ملنے یا خریدے گئے سامان کی تقسیم کیسے ہوئی، مساوی بنیادوں پر تقسیم ہوتی آرہی ہے تو شکایات کیوں ہیں۔
گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کا شکوہ بالائی سطور میں عرض کرچکا، آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی ایسی ہی شکایات ہیں۔
ان شکایات اور مسائل ومشکلات کے بیچوں بیچ دو مسئلے بہت اہم ہیں ایک تو کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ماہرین کورونا وائرس ہیں جن کا دعویٰ ویسا ہی ہے جیسا تھڑے باز نجومیوں اور ’پروفیسروں‘ کا ہوتا ہے
”محبوب آپ کے قدموں میں“۔
ان موسمی ماہرین کورونا کا عوام کو گمراہ کرنے اور لوٹنے کا ذریعہ سوشل میڈیا بنا ہوا ہے جس پر جعلی ماہرین کے ویڈیو اشتہارات موجود ہیں،
ان ماہرین کی بھرمار دیکھ کر نجانے 1979ء میں ملتان میں سامنے آنے والے پیر سپاہی کیوں یاد آجاتے ہیں۔
ان دنوں پیر سپاہی کی شہرت کو مختصر عرصہ میں پر لگ گئے، لاؤڈ سپیکر پر پھونکیں مار کر علاج کر تے تھے جہاں بھی جاتے، شہر کے بڑے سٹیڈیم میں ہزاروں افراد پانی کی بوتلیں، سرسوں کا تیل، سرمے کی شیشیاں لیکر کھڑے ہوتے اور وہ سپیکر پر پھونکیں مارتے رہتے،
ان دنوں پیر سپاہی کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی یہاں تک کہ اس وقت کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنا خصوصی طیارہ ملتان بھجوا کر پیر سپاہی کو اسلام آباد بلوایا، اہلیہ سمیت اسے لینے خود ایئرپورٹ گئے۔
جنرل صاحب نے اپنی صاحبزادی کے علاج کیلئے بلوایا تھا۔ ان کے اس عمل سے پیر سپاہی کی مقبولیت مزید بڑھی، وہ تو بھلا ہو اس وقت کے چند معروف طبی معالجین کا، جنہوں نے لاہور، ملتان اور کراچی میں پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پیر سپاہی کو ملک بھر کے ہسپتالوں میں لے جایا جائے تاکہ مریض شفایاب ہوں۔ حکومت ان ہسپتالوں کی جگہ رفاعی ادارے بنا دے۔
پیر سپاہی ڈرامے کی اصل کہانی یہ تھی کہ4اپریل1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھائے گئے۔ عوام میں رنج وغم تھا، ماحول تبدیل کرنے کیلئے پیر سپاہی راتوں رات مشہور کروائے گئے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دنوں کورونا جیسی موذی بیماری کے موسم میں یہ جو سوشل میڈیا پر خودساختہ دیسی روحانی ماہرین اُگ آئے ہیں ان کیخلاف سختی کیساتھ کارروائی کی جانی چاہئے۔
لاک ڈاؤن کے اب تک کے نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کیساتھ ساتھ اصلاح احوال اور کمزور طبقات کیلئے سامان زندگی کی فراہمی کے حوالے سے دعوے اور زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔
کسی بڑے، چھوٹے شہر کی سڑکوں پر نکل کر دیکھ لیجئے مگر اصل مسئلہ ان سفیدپوش طبقات کا ہے جو ہمارے سماج میں کبھی بھی کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوئے۔
عام حالات میں تو وہ کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیتے ہیں مگر موجودہ حالات میں ان کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔
اس پر ستم یہ کہ پنجاب میں خدمت خلق کیلئے سرگرم تنظیموں اور افرادکو پابند کیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنروں سے اجازت لیں۔
عجیب شرط ہے یہ، کیا حکم جاری کرنے والے کے علم میں نہیں کہ علاقائی طور پر خدمت خلق کیلئے ہمیشہ سرگرم رہنے والے افراد، خاندان اور تنظیمیں حالات کو دفتری بابوؤں سے بہتر جانتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بجا طور پر اس حکم کی مذمت کی ہے۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگر کسی خاندان کو اس وقت روٹی کی ضرورت ہے اور ڈپٹی کمشنر کل اجازت دینے پر غور کر ے گا تو نتیجہ کیا ہوگا۔ حکومتوں نے خود تو اب تک کیا کچھ نہیں دعوے کرنے کے سوا، پھر لوگوں کیلئے مزید مسائل تو پیدا نہ کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر