لوگوں کو جھوٹ بولنے دو
پھول کو بیج بننے دو
آگے پُل بند ہے
اٹھارویں صدی کا اک کچھوا
ایک میل طویل پُل سے گزرتا ہے
کچھوے کو پہلے گزرنے دو
جلوس کو روکو
جلوس کو سڑک کے کنارے ‘ گھاس پر
چڑھنے سے روکو
گلہری کو دھوپ میں دوڑنے دو
موت ‘ عشق اور محبت
جیسے جنگل پانی اور پھول ‘ یا
گلی دروازہ اور سیڑھی ‘ یا
کوئی بھی تلازمہ
رومان کو جو توڑ دے
زندگی کو بارش میں بھیگنے دو
رومان نہیں ٹوٹتا
جیسے محبوب کے کمرے کا بلب ‘ چھت کا پنکھا
اُس کا وعدہ
سنہری قلم ‘ نیلی کرسی
دوست کی دلداری میں یہ نظم
رومان نہیں ٹوٹتا
ہر طرح کے رومان کو ٹوٹنے دو
رومان نہیں ٹوٹتا
جیسے محبوب کے کمرے کا بلب ' چھت کا پنکھا
اُس کا وعدہ
سنہری قلم ' نیلی کرسی
دوست کی دلداری میں یہ نظم
رومان نہیں ٹوٹتا
یہ بھی پڑھیے
سکھر تے بکھر دِی کتھا“(وسیب یاترا :18)||سعید خاور
”””عشق ٻاجھوں جیوݨ کوڑ کہاݨی “ (وسیب یاترا :17)||سعید خاور
”خیرپور تے ہیرا منڈی لہور دا سانگا“(وسیب یاترا :16)||سعید خاور