ہم زندگی میں بہت سے عجیب معاملات دیکھتے ہیں مگر ان پر غور نہیں کرتے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی دوسرے آدمی کو گالی دے یا زیادتی کرے تو متاثرہ شخص کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ جواب میں صرف گالی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس شخص کی جان لینے کے درپے ہو جاتا ہے۔
اس واقعہ کو دیکھنے والے بھی جوابی حرکت کو درست سمجھتے ہیں اور اگر معاملہ عدالت میں چلا جاے تو پہلا شخص مجرم ٹھرایا جاتا ہے۔ اب ایک اور سین دیکھتے ہیں۔ ایک سال کے بیٹے نے اپنی ماں کو ننھے ہاتھوں سے مارا جواب میں ماں نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور چومنے لگی۔اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ بظاہر جو ایک مار کا معاملہ تھا اس کو ماں نے محبت میں بدل دیا۔
ماں نے برائی کو بھلائی کے خانے میں ڈال دیا۔ماں نے ایک قابل سزا چیز کو قابل انعام چیز قرار دے دیا۔یہ واقعہ تقریباً ہر گھر گزرتا ہے اور ہم اس کا مشاھدہ بھی کرتے ہیں مگر بغیر سوچے اس واقعہ سے گزر جاتے ہیں ۔ اصل بات اس سارے واقعہ سے یہ ظاہر ہوئی کہ یہ اللہ کی صفات کمال میں سے ایک صفت کی ہلکی سی جھلک ہے جو ماں کے رویہ کی صورت میں ہمیں دکھائی جاتی ہے۔
یہ خدا کی ایک نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی رحمتوں کے کیسے عجیب نمونے اس دنیا میں بکھیر دیے ہیں۔ شفقت کی یہ انوکھی قسم جو ماں کے اندر پائی جاتی ہے اس کو ماں نے تخلیق نہیں کیا بلکہ اس کا خالق اللہ ہے۔ تو آپ اندازہ کریں جس صفت کا خالق اللہ ہے اس کے اندر یہ صفت کمال کے کس درجے میں ہو گی۔ اللہ کی شفقت کو اپنے پاس بلانے کے لیے ہمیں بھی اپنے دل کو معصوم بچے کی طرح شیشے کی طرح صاف و شفاف بنانا پڑے گا ۔
پہلے ہمارے گھروں میں ایک بینڈ ریڈیو تھا جس سے ہم لاھور ریڈیو سن لیتے پھر ہمارے پاس چار بینڈ ریڈیو آیا تو بی بی سی لندن اور دنیا کے دوسرے سٹیشن بھی آنے لگے۔ ٹی وی پر بھی شروع میں ایک آدھ سٹیشن دیکھ لیتے تھے پھر ڈش اور کیبل نے یہ تعداد سیکڑوں تک پہنچا دی۔ خدا اور بندے کا معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہے۔
خدا کا فیضان ایک لا محدود نشرگاہ کی طرح ہے اس سے ہر لمحہ رزق۔رحمت۔خیر۔شفا۔درگزر ۔کا مینہ برستا رہتا ہے مگر آپ اس سے کتنا پاتے ہیں یہ آپ کے دل و دماغ اور ایمان و یقین پر منحصر ہے۔
اگر آپ اپنے آپ کو وسیع کرتے جائیں گے اتنا زیادہ خدا کا فیضان پائیں گے آپ کو ایسا محسوس ہو گا آپ اللہ کے فیضان کے سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اس زندگی میں آپ کے جسم کی نشونما اچھی غذا کھانے اور ورزش سے ہوتی ہے مگر آپکے دل و دماغ ایمان و یقین اور روح کی نشونما دینے میں ہوتی ہے۔
آپ اپنی ضرورت سے فالتو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں۔آجکل پوری دنیا ایک وبا کے ڈر سے اپنے گھروں کے اندر مقید بیٹھی ہے۔ لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارا اندر تو کئی سالوں سے محدودیت کا شکار تھا۔ ہم میں سے کئی لوگ آج بھی گروہی خول میں بند ہیں۔ کوئی اپنے دنیاوی مفادات میں اس طرح گم ہیں کہ انہیں آگے پیچھے کی کچھ خبر نہیں۔ہم سے اکثر کی سوچ سطحی ہے اور گہری حقیقتوں کا ادراک تک نہیں رکھتے۔کسی کی تنگ نظری نے اس کو اس قابل نہیں رکھا کہ وہ قوم کے وسیع تر مفادات کا سوچ سکے۔آج پاکستان میں ہمارے دہاڑی دار مزدور اور بے سھارا لوگ سخت مشکلات میں ہیں ۔
قوم کے درد مند لوگ اور حکومت ان کے پاس پہنچنا چاہتی ہے مگر مفاد پرست طبقہ اس وبا سے سبق حاصل نہیں کر رہا اور وہ اس مدد اور غریب کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔
وہ لوگ بھی اپنا نام مستحقین میں لکھوانا چاہتے ہیں جو ضرورت مند نہیں۔ بعض تاجر موقع سے غلط فاعدہ اٹھا کر چیزوں کے نرخ بڑھا رہے ہیں اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہو رہے ہیں۔ ہمارا کرپٹ طبقہ اس وبا کے لیے سامان کی خریداری کی رقم میں خرد برد کرنے کا سوچ رہا ہے ۔کیا یہی مسلمانی ہے؟
کیا یہی کردار لے کر ہم سرخرو ہونگے؟ نہیں بھائی وقت یکدم بدل گیا۔اب وقت امتحان ہے ۔بند کوٹھڑی میں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی ۔بند ذھن خدا کا فیضان پانے سے یکسر محروم رہتا ہے۔
اپنے دل و دماغ کے دروازے کھولو ۔اللہ کا فیضان اسی کو ملتا ہے جو یہ دروازے کھولنے پر راضی ہوں۔ آج ہم خلوص دل سے گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگیں تاکہ وہ اپنی شفقت سے ہمارے قصور کو انعام کے خانے میں ڈال دے جیسے کہ ماں اور بچے کے واقع میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے تو اللہ کا قانون حرکت میں آ جاے گا ہمارا بچاو صرف اللہ کی صفت رحیمیت اور فیضان میں پوشیدہ ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ