اس نازک صورتحال میں کسی کا بھی سیاسی راگ الاپنے کو دل نہیں کرتا لیکن جس طرح ’’نوواں نالوں ماس وکھ نئیں ہندا‘‘ اسی طرح سماجیات اور ترجیحات کو آپ سیاسیات سے الگ نہیں کر سکتے!
پہلے دن مجھے کورونا عذاب کا واضح احساس 28جنوری کو اسلام آباد میں اس وقت ہوا جب یونیورسٹی آف بلتستان کے الیکشن بورڈ میں امیدوارانِ اسسٹنٹ پروفیسرز سے کورونا کے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ اس سے قبل میرے نزدیک سب دھندلا تھا، پھر 5فروری کو میں اپر سندھ کے مطالعاتی دورہ پر گیا تو 5فروری آئی بی اے سکھر میں قیام کے بعد گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز تحصیل گمبٹ ضلع خیرپور گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ چائنہ پلٹ ایک نوجوان انتہائی نگہداشت میں گمبٹ ٹیچنگ اسپتال میں داخل ہے کیونکہ کسی اور نے اس کو ’’قبول‘‘ نہ کیا، اس نوجوان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ وہاں لوکل میڈیا بھی پہنچا ہوا تھا اور ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی سے سہولتوں کےمتعلق پوچھا جا رہا تھا۔ گویا یہ وہ موقع تھا جب میں نے کورونا کو سمجھنے کی کوشش کی۔
لاڑکانہ، گڑھی خدا بخش، گمبٹ، شکارپور و سکھر شہر، ان کی یونیورسٹیاں اور اسپتال بالخصوص نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو و اسکولر ڈیزیزز سکھر اور گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کی جدتیں اور انتظامات و خدمات میرے لئے صرف حیران کن نہیں، انتہائی حیران کن تھیں، سندھ حکومت کے تعمیراتی اور طبی سہولتوں کے کام کو قابل ستائش جان کر جب میں نے سپردِ قلم کیا تو میرے سندھ کے حوالے سے ’’سندھ مسیحائی میں آگے؟‘‘ (جنگ 9فروری 20) اور ’’سندھ: ترجیحات اور تشریحات کے رنگ‘‘ (جنگ 16فروری 20) کالموں کو عام آدمی نے نہیں، سیکرٹریوں، ڈاکٹروں اور پروفیسروں نے مذاق کا نشانہ بنایا۔ کسی نےا سپانسرڈ کہا اور کسی نے ’سیاسی ہتھکنڈا‘۔ حالانکہ میں نے ٹی وی ٹاک شوز پر چیلنج دیا کہ میری ٹیم میں دو خواتین ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ کراچی سے اور ایک انجینئر مظفر آباد سے تھے اور تینوں پیپلز پارٹی مخالفین مگر تینوں کے بلاگ یا سوشل میڈیا تحریریں اس بات کی شہادت بنے کہ سندھ اندر ہی اندر محنت کر رہا۔ ان میڈیکل پرسنز نے یہاں تک کہا کہ فلاں فلاں لاہور و اسلام آباد اور کراچی کے جدید پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی یہ سہولتیں نہیں جبکہ اس کے باہر اس کے خلاف پروپیگنڈا تسلسل میں تھا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ ایسا کیوں تھا اور کس لئے؟
واضح رہے کہ یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور سعید غنی نے میرے کالم ٹویٹ ہی نہیں کیے بلکہ مجھے دعوت بھی ملی کہ میں تھر کا بھی مطالعاتی دورہ کروں، مگر میں نے صاف کہا ’’آپ اپنا کام کیجئے پلیز! اور میں اپنا، میں دورہ ضرور کروں گا تاہم آپ لوگوں کو معلوم بھی نہ ہوگا!‘‘
ان کشیدہ حالات میں تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر بیٹھا میں یہ سوچ رہا ہوں، اگر سندھ نے اپنے طبی انفراسٹرکچر پر کام نہ کیا ہوتا تو حالات انتہائی خراب ہوتے اور جو انہوں نے کر رکھا تھا اس سے کورونا قیامت کے آگے بند باندھنے میں بہت اعلیٰ مدد ملی ہے۔ چونکہ سندھ قیادت نے امورِ صحت پر کام کیا تھا، ان کی ریسرچ تھی، انفراسٹرکچر تھا چنانچہ ان کے پاس پیش بندی کا وژن، حکمت عملی اور حساسیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پھر مراد علی شاہ کو مخالفین نے بھی سپر وزیراعلیٰ اور بلاول بھٹو زرداری کے طرزِ تکلم اور سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کو معاونت کی پیشکش کرنے کی پاداش میں قابلِ تحسین اور وژنری اسٹیٹس مین قرار دیا گیا۔
راقم تاحال وفاق کی جانب سے، 1۔آئسولیشن، 2۔ٹیسٹ کرانا چاہئے، 3۔ٹیسٹ کی ضرورت ہے، 4۔ایمرجنسی مینجمنٹ اور 5۔بحران مینجمنٹ کے پاورفل اعلان کا منتظر ہے!
مانا کہ چین و امریکہ و برطانیہ ہم سے زیادہ جدید اور منظم ہیں لیکن ہم بھی وہ قوم ہیں جنہوں نے جب خطرہ بھانپا تب جوہری توانائی کی بنیاد رکھ لی اور اس کی تکمیل کرتے وقت سیاست کو پرے رکھا۔ آج بھی قوم بننا ہوگا، موقع ہے، چلیں سیکھتے ہیں! جب اعلان ضروری ہوا تب دھماکے کرکے اعلان کر دیا، دو نوبیل پرائزڈ کو اس دھرتی نے بھی جنم دیا، اے کیو خان، جہانگیر خان وغیرہ نے عالمی جھنڈے گاڑے، اسلامی سربراہی کانفرنس کا رواج ہم نے بخشا، ورلڈکپ اور طلائی تمغے ہم نے بھی جیتے، چیرٹی میں ہم نمبر ون، پاکستان آرمی عالم میں سپر ون، ڈاکٹروں، رضاکاروں اور پروفیسروں کا جذبہ بھی کم نہیں، پیرا میڈکس ہمارے کمانڈوز ہیں جنہیں میں نے زلزلہ کشمیر و بالاکوٹ 2005ء میں براہ راست دیکھا۔ اس وقت جس نظام کو سب سے بہتر ہونا چاہیے وہ قوم کا اعصابی نظام ہے، دوسرا انتظامی نظام اور تیسرا صحت کا انتظام۔ ان سب نظاموں کو ملا کر کونسلنگ کا نظام قومی سطح پر مربوط رکھنا ہے۔ اس کورونا وار میں اگر قوم ڈسپلن اور آئسولیشن کی گارنٹی کر لیتی ہے تو ہم امریکہ و چین سے بڑے فاتح ہو سکتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے گھر اور خاندان میں سے 80فیصد کا حفاظتی متحرک اور منظم ہونا فرض ہے۔ ان حالات میں یقیناً سب حکومتوں کو سندھ سے سیکھنا ہوگا کیونکہ سندھ نے بروقت فیصلوں سے اپنی طرف سے کورونا محاذ پر چاق و چوبند ہو کر بگاڑ کا راستہ روکنے میں پہلی صف کے سپاہی کا کردار ادا کیا۔ ہاں! عالم ذات میں درویش بنا دیتا ہے… عشق انساں کو پاگل نہیں ہونے دیتا! سیاسی و سماجی و نظریاتی ہونے سے خطرہ نہیں، پاگل ہونے میں خطرہ ہے!
کسی کو دیکھتے رہنے سے وبا ٹل جائے
خدا کرے کہ یہاں عشق کی وبا پھوٹے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر