نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران سرکار قبل از کرونا کیفیت سے باہر نکلے ۔۔۔ مرتضی سولنگی

اس وقت کرونا کے پھیلاؤ میں جہاں ایران سے آئے ہوئے زائرین ہیں، وہاں تبلیغی جماعت سمیت دیگر مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں۔

دوسری عراق جنگ کے دوران اُس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے کہا تھا کہ جنگ آپ اس فوج سے لڑتے ہیں جو آج آپ کے پاس ہے، اس فوج سے نہیں جو آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس ہو۔

انسانیت آج کرونا (کورونا) وائرس سے اپنے وجود کی جنگ بھی اُس فوج کے ساتھ لڑ رہی ہے جو اس کے پاس آج موجود ہے۔

ان ہتھیاروں کے ساتھ لڑ رہی ہے جو آج اس کے پاس موجود ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔ اب اس پر نوحہ خوانی کا کوئی فائدہ نہیں کہ جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد ہمیں ایک ناکارہ اور نااہل قومی قیادت ملی، جس نے قومی شیرازہ بکھیر دیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کچھ آپ کو میسر ہے آپ اس کے ساتھ مقابلہ کریں۔ فیدل کاسترو نے کہا تھا کہ دوران جنگ کبھی کبھی نہتے لوگ ہوائی جہازوں پر بھی پتھر پھینکتے ہیں۔

ایک بات البتہ واضح ہے: جنگ جیتنے کے لیے ڈھلمل پن نہیں بلکہ واضح سوچ، حوصلے اور فیصلہ کن طاقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

تمام تر کمزوریوں کے باوجود حزب اختلاف کی بلا شرط تعاون کی پیش کش کے باوجود عمران سرکار گرتے گراتے، لڑکھڑاتے قدموں سے ایک ایسی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس نے پوری عالم انسانیت میں طاقت ور ترین اور سب سے ترقی یافتہ ملکوں کو مفلوج کر دیا ہے۔

جوں کا توں اور وقت کی بے رحم ہواؤں کے تھپیڑوں پر گھسٹنے کی پالیسی اجتماعی خودکشی کے مترادف ہے۔ 1200 سے زائد کرونا مریض جو جمع نہیں بلکہ ضرب کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں، اس بات کے متقاضی ہیں کہ عمران سرکار دل جمعی کے ساتھ اس بحران کا مقابلہ کرے اور پوری قوم کی اجتماعی دانش اور وسائل کو یکجا کرے اور قبل از کرونا ذہنی ڈھانچے سے نکلے۔

عمران سرکار کو قبل از کرونا کیفیت سے نکلنا ہوگا کیونکہ اس سے نکلے بغیر آگے چلنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانی قوم شاہراہ قراقرم پر رات کے وقت ایک بڑی بس میں بیٹھی ہوئی ہے اور ڈرائیور کو نیند آ گئی ہے۔

عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ اقتدار انہیں عوام نے دیا ہے یا حادثاتاً مل گیا ہے، وہ اس کے اہل ہیں یا نہیں، اب انہیں ذمہ داری اور اہلیت دکھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

چاہے یہ ان کے مزاج میں ہو یا نہ ہو، انہیں اپنی انا کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ اگر وہ ابھی تک ماضی کے مزار بنے رہے تو تباہی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔

تھوڑی دیر کے لیے تافتان کے قضیے کو بھول جائیں اور اب تک جو کوتاہی دکھائی ہے اسے بھی بھول جائیں، آگے چلیں۔ پرانی غلطیوں پر ماتم نہیں کرتے پر کم از کم انہیں دہرانے کی کوشش نہ کریں۔

عمران سرکار نے ایک طرف قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو فریضہ سونپا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت آل پارٹیز کانفرنس منعقد کریں لیکن جب تمام جماعتوں کے قائدین جمع ہوئے اور انہوں نے عمران خان کی ایک گھسی پٹی تقریر سن لی، جس میں انہوں نے ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی مخالفت فرمائی اور 25 فیصد غریب عوام کے دکھ میں ٹسوے بہائے۔

اس کے بعد وہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کو، جن میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی شامل تھے، سنے بغیر اٹھ کرچل دیے۔

نتیجے کے طور پر وزیر اعظم کی طرف سے بلائی گئی کانفرنس میں برتی گئی غیر سنجیدگی کے رد عمل کے طور پر حزب اختلاف کے یہ رہنما اٹھ کر چلے گئے۔ اس طرح عمران خان نے اپنی ہی کانفرنس کو ناکام بنا دیا۔

وزیر اعظم کے پاس آئے دن ٹی وی اینکروں کے ایک مخصوص گروہ کے ساتھ گھنٹوں بیٹھنے کا وقت ہے لیکن منتخب قومی رہنماؤں کے ساتھ ایک قومی بحران پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں۔

ابھی تک واحد سندھ حکومت اور اس کے سربراہ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم ہے جو اس مشکل صورتحال میں سخت لیکن واضح اور جرات مندانہ فیصلے لے رہی ہے۔

لاک ڈاؤن کے حوالے سے بھی وفاقی حکومت یا کسی اور صوبائی حکومت نے نہیں بلکہ سندھ حکومت نے پہلے رضاکارانہ اور پھر سرکاری لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔

اس کے نتیجے میں متاثرین کے لیے اقدامات کیے، جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے انتظامات کیے اور جمعرات کی شام سب سے پہلے تمام مساجد میں جمعے کی نماز سمیت تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی۔

جب میڈیا، سول سوسائٹی اور رائے عامہ نے مخالفت کی بجائے اس معاملے پر سندھ حکومت کا بھرپور ساتھ دیا تو پھر ہم نے دیکھا کہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی لڑکھڑاتی ہوئی اس بھیڑچال میں شامل ہوگئیں اور سب سے آخر میں اسلام آباد کی انتظامیہ نے اس پر عمل درآمد کی نوید سنائی۔

تاہم سب سے افسوس ناک امر اس پورے معاملے میں وفاقی حکومت کے غیر متعلق ہو جانے کا ہے۔

ایسے وقت جب ہم شدید بحران کی کیفیت میں ہیں، جب ہم شدید سمندری طوفان کے منجدھار میں ہیں، جہاز کے کپتان چھوڑ کر نہیں جا سکتے اور نہ انہیں ہٹانے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوگا بلکہ الٹا نقصان زیادہ ہوگا۔

یہ ابھی راز ہے کہ پورے ملک میں آئین کے آرٹیکل 245 کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا۔ وزارت قانون نے کب یہ سمری کس کی سفارش پر بھجوائی اور کب کابینہ نے اس کی منظوری دی۔ لیکن اب اس شق کے تحت ملک بھر میں مسلح افواج سول انتظامیہ کی مدد کے لیے موجود ہیں اور لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کروانے میں بھی مدد کر رہی ہیں۔

اس وقت سب سے بڑا نقصان افراتفری سے ہوگا۔ فی الوقت جو ہے، جہاں ہے وہاں معاملات کو منظم کرنے اور مقابلہ کرنے کا ہے۔

اس وقت سیاسی کھیل تماشے اور شطرنج کی نئی بساط بچھانے کا وقت نہیں۔ پچھلے دنوں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ کی جو خبریں آئی ہیں وہ آج کے حالات میں بہت پریشان کن ہیں۔

اس وقت پوری قوم، اس کے تمام اداروں، سول سوسائٹی، حزب اقتدار، حزب اختلاف، عدلیہ، ذرائع ابلاغ، سب کو ایک صفحے پر کرونا کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

اس وقت نہ عمران خان اپنی ادائیں دکھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ان کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے سے ملک و قوم کی بھلائی ہوگی۔ یہ تمام معاملات اس بحران سے نمٹنے کے بعد دیکھے جائیں گے اور دیکھے جا سکتے ہیں۔

جمعے کو بری خبر جو سننے کو ملی وہ شاہد خاقان عباسی کی نیب ریفرنس میں بغیر ضمانت گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ اس سے پہلے غیر مصدقہ اطلاعات ملی تھیں کہ ایک طرف شہباز شریف، جن کی لندن موجودگی پر عمران سرکار ٹھٹھے اڑا رہی تھی، ان کی وطن واپسی میں ایک طرف رخنے ڈالنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف انہیں دوبارہ دھر لینے کی کوشش کی گئیں۔

جمعے کو ہی یہ اطلاع ملی کہ اب لندن میں زیرِعلاج نواز شریف کو بھی 31 مارچ کو نیب نے پراپرٹی کیس میں طلب کر لیا ہے۔ یہ اطلاعات ایسے وقت آ رہی ہیں جب پاکستان اپنی نحیف طبی مشینری اور سہولیات کے ساتھ  کرونا کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر ان خوف ناک حالات میں عمران سرکار کی یہ ترجیحات ہیں تو پھر ایک عظیم المیہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

ان صفحات میں پچھلے ہفتے بھی یہ لکھ چکے ہیں کہ اس وقت بہت ضرورت ہے تمام قومی اداروں کو متحرک کرنے کی۔ ایسے وقت جب لوگ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں قید ہیں، سب سے زیادہ ان لوگوں کو محلے کی سطح پر اطلاعات اور مدد کی رسائی ہے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے لپیٹ دیا اور نئے انتخابات بھی نہ کروائے۔

مقامی حکومتیں، جو گلی محلی کی حکومتیں ہیں، موجودہ صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی تھیں لیکن اب وہ موجود نہیں۔

عمران خان نے جمعے کی شام اپنے من پسند صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے البتہ یہ مژدہ سنایا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی جماعت کی ‘کرونا ٹائیگر فورس’ تشکیل کر رہے ہیں۔

انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس فورس کو وہ کس قانون کے تحت بنا رہے ہیں اور اس کے اخراجات کہاں سے ادا کیے جائیں گے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ایسے مشورے وزیر اعظم کو کون دیتا ہے، حزب اختلاف اس پر کیا رد عمل دے گی اور کیا اسے عدالتوں میں چیلنج تو نہیں کیا جائے گا اور اس کے موجودہ صورتحال پر کیا نتائج مرتب ہوں گے؟

ہونا تو یہ چاہیے کہ وزیر اعظم اپنی جماعت سے کہتے کہ وہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پچھلے بلدیاتی ڈھانچے کو اگلے چھ ماہ کے لیے بحال کردیتے اور تمام بحالی کے اقدامات اس کے ذریعے کرواتے، بجائے ایک غیر آئینی اور غیر قانونی نام نہاد ٹائیگر فورس کے ذریعے سے یہ کام کروانے کی کوشش کرتے۔

موجودہ بحران میں کئی دہائیوں سے ریاست کی طرف سے کٹھ ملاؤں کو پالنے اور غیر سائنسی رویوں کی ترویج دینے کے نتائج بھیانک شکل میں سامنے آئے ہیں۔

اس وقت کرونا کے پھیلاؤ میں جہاں ایران سے آئے ہوئے زائرین ہیں، وہاں تبلیغی جماعت سمیت دیگر مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں۔

دنیا بھر کے ملکوں، جن میں سعودی عرب، خلیجی ممالک اور ترکی وغیرہ شامل ہیں، نے ان اجتماعات پر جن میں جمعہ کے اجتماعات شامل ہیں، پابندی لگا دی ہے لیکن پاکستان کے بہت سے مذہبی حلقوں نے ہر عملیت پسندانہ سوچ کی مخالفت کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔

آخر کار سندھ حکومت نے ہی اس معاملے پر بھی پہل کی اور جمعرات کی شام اپنے صوبے میں ان اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ جیسے سندھ کے لاک ڈاؤن کے بعد باقی صوبوں نے اس پر عمل کیا، اسی طرح سندھ کے اعلان کے بعد باقی صوبوں نے بھی ان اجتماعات پر پابندی کا اعلان کیا۔ اس معاملے میں وفاقی حکومت ایک غیرمتعلقہ اور ہوا میں معلق اکائی کے طور پر دکھائی دے رہی ہے۔

لوگ مر رہے ہیں لیکن عمران سرکار کو آج بھی یہ احساس نہیں کہ یہ وقت مل کر کام کرنے کا ہے۔ جمعے کی شام صحافیوں کے گروہ میں موجود صحافی نسیم زہرہ کی اس تجویز کے جواب میں کہ انہیں بلاول بھٹو اور شہباز شریف سے ملنے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم اب بھی قبل از کرونا، پرانے چور ڈاکو لٹیرے والے بیانیے پر کھڑے ہیں اور یہ بہت بری خبر ہے۔

وزیر اعظم کے جواب کا مطلب تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال ناقابل اصلاح ہے۔ ماسوائے ایک بہت بڑے جھٹکے کے، یہ صورتحال تبدیل نہیں ہونے والی۔ کیا ہم ایک بڑے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں؟

About The Author