نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دشمنی کس نے کی؟۔۔۔ رؤف کلاسرا

ان کا خیال ہوتا ہے کہ کروڑوں عوام کو کون مطمئن کرے‘ بہتر ہے چند چینلز اور میڈیا ہاؤسز کو ہی باندھ دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
میڈیا کا کام ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ کون ہو گا جس کے ذہن میں یہ تصور آیا ہو گا کہ ایک معاشرے میں میڈیا کا رول بھی ہونا چاہیے۔ شاید جب جمہوریت کا تصور پیش کیا گیا تھا تو اس کے ساتھ انسانی نفسیات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہو گا۔ اس انسانی نفسیات کو کہ کوئی لاکھ جمہوری طریقے سے وزیر اعظم بنے لیکن طاقت اتنی ہوتی ہے کہ کسی کو ڈکٹیٹر بننے میں دیر نہیں لگتی‘ لہٰذا ممکن ہے ایک حکمران کو جمہوری رکھنے کے لیے جہاں چند اور اداروں کی تشکیل کی گئی اور انہیں رول دیا گیا‘ وہاں میڈیا کو واچ ڈاگ کا رول دیا گیا ہو گا تاکہ یہ حکمرانوں اور ان کے اقدامات پر نظر رکھیں۔
لیکن ظاہر ہے حکمران خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے‘ لہٰذا جب بھی میڈیا کی طرف سے اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فوری طور پر اس کا شدید رد عمل آتا ہے اور چونکہ حکومت کے پاس سرکاری طاقت ہوتی ہے‘ لہٰذا پوری کوشش کی جاتی ہے کہ اس آواز یا ادارے کو رگڑ دیا جائے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات پچھلے کچھ عرصے سے خراب ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں دونوں کے درمیان اختلاف سامنے نہ آتا ہو اور یہ بڑی فطری بات ہے۔ کسی بھی ملک میں کوئی بھی حکومت افورڈ نہیں کر سکتی کہ کوئی میڈیا ہاؤس اس کے خلاف سکینڈل فائل کرے۔
کیونکہ اس طرح ایک تو عوام میں اس کی مقبولیت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ دوسرا یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کل کلاں نیب کے مقدمے بھی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اب ہوتا یوں ہے کہ سیاستدان اقتدار میں آنے کے لیے ہر قسم کے دعوے اور وعدے کر لیتے ہیں۔ اس وقت نہیں دیکھتے کہ وہ یہ سب کچھ پورا کر سکیں گے یا نہیں۔
اقتدار ملتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب ممکن نہ تھا۔ جب لوگ ان سے وہ وعدے پورے کرنے کے لیے دبائو ڈالتے ہیں تو اس وقت حکمرانوں کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ یا تو لوگوں کے سامنے تسلیم کرے کہ وہ سب وعدے پورے نہیں کر سکتے‘ لیکن ہاں وہ کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ میڈیا کو ہی لگام ڈال دیں‘ جو ان کے خیال میں عوام کو بھڑکا رہا ہوتا ہے۔ کارکردگی دکھانا مشکل کام ہے‘ کون اتنی محنت اور دن رات کام کرے‘ لہٰذا حکمران میڈیا پر ہی پابندیاں لگانے کے منصوبے بنا لیتے ہیں۔
ان کا خیال ہوتا ہے کہ کروڑوں عوام کو کون مطمئن کرے‘ بہتر ہے چند چینلز اور میڈیا ہاؤسز کو ہی باندھ دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایران سے آنے والوں پر ہی سب معاملہ بگڑا ہے‘ ورنہ اب تک سب خاموش اور آرام سے بیٹھے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایران یا دوسرے ممالک سے واپس آنے والوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں یا جنہوں نے ان کو بغیر ٹیسٹ اور کورنٹین کے اپنے اپنے گھروں میں بھیج دیا‘ وہ سچے ہیں؟
یقینا یہ بہت حساس معاملہ ہے‘ کیونکہ وہ لوگ جو ایران کے شہروں میں زیارات کرنے گئے تھے ان کے لیے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ ایران کے شہر قم میں وائرس پھیل گیا تھا‘ ان کو خطرہ تھا کہ وہ کہیں شکار نہ ہو جائیں۔ چند ذمہ دار لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان پاکستانیوں کی جانوں کو خطرات بھی لاحق ہو گئے تھے کیونکہ ایران میں یہ بات پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ یہ وائرس دراصل پاکستانی ہی لے کر آئے ہیں۔
ایران میں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ پاکستان میں یہ وائرس چین سے آیا اور وہاں سے یہ زیارات کے لیے آنے والوں کے ذریعے ایران پہنچا۔ اب ایرانی حکام بھی یقینا کوئی بہانہ تلاش کر رہے ہوں گے کہ وہ اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کا کوئی جواز پیش کریں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان ایران سے اپنے لوگوں کو نہ نکالتا تو ان کی جانوں کو خطرہ تھا کیونکہ وہاں اشتعال پھیل رہا تھا۔
جبکہ دوسری طرف ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ جب چین سے پاکستانی طالب علم نہیں لائے گئے تھے تو پھر ایران کی سرحد کھول کر پاکستانیوں کو اندر کیوں آنے دیا گیا؟ میرے خیال میں زیارات کے لیے جانے والوں کو ہرگز نہیں روکنا چاہیے تھا۔ وہ پاکستانی ہیں اور یہ ان کا حق تھا کہ وہ مشکل میں ہیں تو وطن واپس لوٹیں۔ اسی طرح عمرے سے بھی لوگ واپس آ رہے تھے۔ اب پتہ چلا ہے کہ جو لوگ عمرے پر گئے تھے ان میں بھی وائرس پایا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر کس کا قصور ہے؟
بظاہر سارا قصور حکومت کا ہی بنتا ہے۔ جب پندرہ جنوری کو پتہ چل چکا تھا کہ پاکستان میں وائرس آ سکتا ہے تو فوری طور پر دو تین کام کیوں نہیں کیے گئے؟
معتمرین اور زائرین کی تفصیلات کو اکٹھا کرکے پلان کرنا چاہیے تھا کہ ہمارے شہریوں نے کچھ دنوں تک واپس آنا ہے تو ان کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب اور ایران اپنے مذہبی مقامات بند کر چکے تھے۔ اس سے واضح تھا کہ خطرہ کس سطح کو پہنچ چکا تھا۔ کیا ایران اور سعودی عرب میں پیدا ہونے والے اس بحران کو سنجیدہ لینے کی کوشش کی گئی؟ حکومت نے کوئی ایک اجلاس کیا ہو کہ ایران اور سعودی عرب میں وائرس پھیل رہا ہے اور ہمارے شہریوں نے واپس آنا ہے اور ان کا ہم نے کیا کرنا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ میرا خیال ہے فوری طور پر ایران بارڈر پر فوج کی مدد سے ایمرجنسی لگا کر عارضی طور پر ہسپتال بنانے چاہئیں تھے۔ یہ پاکستان کی بقا اور زائرین کی بقا اور صحت کا معاملہ تھا‘ لہٰذا اس کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت تھی۔ یہ کام نہیں ہو سکتے تھے تو کسی پرائیویٹ سیٹھ کو چند ارب روپے دے کر کہا جا سکتا تھا کہ ہمیں وہاں بہترین سہولتیں بنا کر دیں تاکہ زائرین واپس آئیں تو انہیں وہاں ٹھہرایا جا سکے اور انہیں تکلیف بھی نہ ہو۔ ساتھ ہی ان کے لیے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں سمجھایا جاتا کہ یہ ان سب کی جان کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ ٹیسٹ کرائیں اور کورنٹین میں چلے جائیں۔
لیکن جب یہ لوگ پاکستان لوٹے تو وہاں کوئی بھی سہولت نہ تھی۔ کوئی ہوم ورک نہ تھا۔ سب کو روک لیا گیا کیونکہ اس دوران پاکستان میں خود ایمرجنسی کی صورتحال بن رہی تھی۔ ایک طرف ایران کا دبائو کہ پاکستانیوں کو نکالیں اور دوسری طرف حکومت پاکستان پر دبائو کہ ان کو واپس آنے دیں۔
یوں اس دوران جب سہولتیں نہ تھیں اور دبائو بڑھا تو سرحد کھول دی گئی۔ سرحد کھولنے پر اعتراض نہیں‘ لیکن انہیں وہاں سے جس طرح کچھ طاقتور لوگوں کی سفارش پر بغیر ٹیسٹ اور کورنٹین کے گھروں کو جانے دیا گیا‘ وہ ایک ایسا جرم ہے جس کی قیمت یہ ملک تو ادا کر ہی رہا ہے‘ بیرون ملک سے آنے والے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ اب جب انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کہاں کہاں‘ کن کن شہروں میں گئے ہیں تو اکثر غائب ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ حکومت کہاں سے پیسے لاتی اور واپس آنے والوں کو یہ سہولتیں دیتی تاکہ وہ گھروں کو نہ جاتے۔
سوال یہ ہے کہ اب بھی تو ایک ہزار ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے۔ ایرانی سرحد پر یہ انتظامات چند ارب میں ہو سکتے تھے‘ تاکہ واپس آنے والوں کو تکلیف نہ ہوتی‘ وائرس کا پھیلائو بھی پاکستان کے اندر نہ ہوتا اور نہ ہی وطن واپس آنے والے اور ان کے اپنے خاندان ان خطرات سے بھاگ رہے ہوتے جو ان بے چاروں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اب خود فیصلہ کر لیں کہ زیادتی کس نے کی؟ میڈیا نے یا جنہوں نے دو ماہ بیٹھ کر باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا؟ میڈیا نے بیرونِ ملک سے واپس آنے والوں کا سوال اٹھا کر ان کا ہی بھلا کیا ہے اور الٹا حکومتِ وقت کو ناراض کیا ہے‘ لیکن خود سوچنا ہو گا کہ یہ زیادتی کس نے کی؟
مناسب انتظامات‘ ٹیسٹ اور کورنٹین کے بغیر گھروں کو بھیج کر‘ ملک کو تو چھوڑیں‘ خود ان زائرین کے ہزاروں خاندانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس مشکل سوال کا جواب تلاش کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔

About The Author