یوں تو ہرقسم کی محفل میں ہر قسم کا موضوع زیرِبحث لایا جاتا ہے۔ سیاست، ادب، سماج سے لے کر جدید سائنسی ایجادات تک کم سے کم پڑھا لکھا آدمی بھی بات کرنا چاہتا ہے۔ لوگ انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز، روبوٹ، اسپیس شٹل، ڈرون اور کن کن اشیاء کا ذکر نہیں کرتے جو انکی زندگیوں کو آسان بنا رہی ہیں۔ مگر آئینے کا کوئی نام نہیں لیتا۔ کوئی اس غریب آئینے کو شاباشی نہیں دیتا۔ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا کہ بھیا آئینہ! تیری وجہ سے عیب چھپانے، خامیاں دور کرنے کا موقع ملتا ہے، محفل میں بھرم قائم رہتا ہے اور لوگ تعریف و توصیف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آئینہ بڑے کام کی چیز ہے، اس کی کئی شکلیں ہیں۔ یہ ہمیں عکس دکھاتا ہے اور عکس کے اندر جادوئی طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت کسی کو بھی احساس تفاخر میں مبتلا کرسکتی ہے یا ندامت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ کبھی یہ جھیل کا صاف اور شفاف پانی ہے جو چاند پر اسکی چاندنی آشکار کرتا ہے۔ کبھی یہ سنگھار میز جڑا شیشہ، کبھی کسی کا خیال تو کبھی یہ کسی کی گفتگو ہے۔ کچھ لوگ بھی آئینہ ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھیں تو آ پ کو اپنا آپ ہی نظر آئے گا۔ آئینہ جہاں ہر ایک کی ضرورت ہے وہاں یہ بدنام بھی ہے۔ ایک طرف یہ لوگوں کو سنوارنے اور سدھارنے کے کام آتا ہے تو دوسری طرف اس پر لوگو ں کو خراب کرنے کا الزام بھی ہے۔ یاد رکھیں! آئینے اور انسان کے تعلق میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔زیادہ تر لوگ آئینہ دیکھتے ہیں مگر کچھ لوگوں کو آئینہ دیکھتا ہے۔ ہم چل کر آئینے کے پاس جاتے ہیں اور کبھی خدا کی مہربانی سے آئینہ چل کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ کچھ لوگ عمر بھر آئینے کے متلاشی رہتے ہیں اور کچھ کو آئینہ دیکھنے کی فرصت نہیں۔ واحد آئینہ ہی ہے جو امیر اور غریب میں بھی تفریق نہیں کرتا۔ اسے مرد اور عورت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ بچے سے لے کر بوڑھے تک، فقیر سے لے کر وزیر اعظم تک کو خوش آمدید کہتا ہے اور سب کا ایک جیسا ساتھ دیتا ہے۔ جو بھی اس میں اپنا آپ دیکھنا چاہے، دیکھ لے اور یوں ہم سب کئی بار آئینے میں اپنا آپ دیکھتے ہیں۔ مگر بچپن سے آج تک اپنا ساتھ دینے والے آئینے کو ہم نے کسی قابل ہی نہیں سمجھا۔ اس کے روبرو کھڑے ہو کر تیار ہونے کے بعد جب ہم اپنے دفتر یا کسی تقریب میں پہنچتے تو لفظ آئینہ ہمارے ذہن میں کہیں گونجتا تک نہیں ہے۔ کسی محفل میں اس کی اہمیت اور افادیت پر کبھی دو لفظ نہیں سنے۔ ہاں سچ ہے کہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کے سامنے پھر کوئی بھی ہو چاہے بادشاہ ہو یا گدا۔ جو جیسا ہے وہ ویسے ہی اس کی حقیقت بیان کردیتا ہے۔ وہ کبھی کسی کی چغلی نہیں کرتا۔ کبھی یہ نہیں کہتا کہ ابھی آپ سے پہلے فلاں شخص آکر گیا۔ یہ آئینہ بھی بڑے کمال کی چیز ہے، ہماری ذات کے وہ سب رنگ، زاویے اور پہلو ہمارے سامنے عکس کی صورت میں پیش کردیتا ہے جن کا اس کے بغیر ہمیں احساس نہیں ہوپاتا۔
آئینہ بہت قیمتی ایجاد ہے جب سے آئینہ ایجاد ہوا اس کی بدولت اُردُو کو بہت سی خوبصورت تراکیب، محاورے اور اشعار دستیاب ہوئے۔ صرف چہرہ دیکھنے کے لئے استعمال کیا جانے والا آئینہ شاعری میں آکر کتنی وسیع اور رنگا رنگ دنیا تک پہنچنے کا زریعہ بن گیا اور محبوب سے جڑے ہوئے موضوعات کے بیان میں اس کی علامتی حیثیت کتنی اہم ہوگئی ہے۔ شاعری میں توہر طرف آئینہ ہی آئینہ نظر آتا ہے۔ درجنوں مشہور و معروف ادباء، شعراء اور لکھاریوں کی کتابوں کے ناموں میں بھی آئینہ استعمال ہوا۔ اور وہ معاشرے کو آئینہ بھی دکھاتے رہے۔ عام لوگ خود آئینہ دیکھتے ہیں لیکن ادیب، شاعر اور قلمکار دوسروں کو آئینہ دکھا کر معاشرے میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ ادب اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے۔ ہر انسان کی طرح ادیب بھی معاشرے کی تمام ضروریا ت اور اپنے چاروں طرف ہو نے والے واقعات و حادثات سے متاثر ہو تا ہے اور انہی حالات کو وہ اپنی قلم سے آئینہ بنا کر دکھاتا ہے۔ بہرحال عصر حاضر میں ادیب و شعراء خود تو آئینہ دیکھتے ہیں لیکن معاشرے کو آئینہ نہیں دکھاتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج کل کے زیادہ تر ادباء، شعراء اور قلمکاروں کو خود بھی آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ محاوروں میں آئینہ دکھانا، آئینہ بنانا، آئینہ الٹا دکھانا، آئینہ بن جانا اور ایسے بیسیوں محاورے موجود ہیں۔ آئینے سے مستفید ہونے والوں میں فلم والے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔چنانچہ ”آئینہ ان کودکھایا توبُرامان گئے“ ایسے گیت وجود میں آئے۔
آئینہ فارسی بان کا لفظ ہے اور اردو میں اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی ماخوذ ہے سب سے پہلے 1649ء میں ”خاورنامہ” میں مستعمل ملتا ہے۔ لغات میں اسکے معنی قلعی کیا ہوا شیشہ جس کی پشت پر مسالا لگا ہو اور جس میں چیزوں کا عکس نظر آئے، منھ دیکھنے کا شیشہ۔ آئینہ جہاں اردو ادب اور فنون لطیفہ کی ہر صنف میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے وہاں اس کا سیاسی کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں اپنی حریف جماعتوں کو آئینہ دکھاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ فی الوقت سب سے بڑا آئینہ ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے جو بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب و ملت سب کو آئینہ دکھاتا رہتا ہے۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے کہ اس آئینے میں جس حکمران، جس سیاسی جماعت کو اپنی مکروہ شکل نظر آتی ہے وہ آئینہ بردار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ ابھی تک کئی آئینہ بردار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا زخموں سے چُور اپنے گھروں میں پڑے ہیں۔
جہاں معاشرے میں آئینے کا ایک طِلِسمی تصور پریوں کو شیشے میں قید کیا جانا ہے وہاں بیاہ کی رات ایک رسم مقرر ہے جس کو آئینہ مصحف کہتے ہیں۔ دلہا کو دلہن کے ہم پہلو بیٹھا کر دونوں کے سامنے ایک بڑا سا آئینہ رکھتے ہیں اور دونوں کو ایک ہی وقت میں اس میں ایک دوسرے کی شکل دیکھاتے ہیں۔ بہرحآل آئینہ یادوں کی برسات بھی ہے۔ یہ آپ کے چہرے پر ماہ و سال کی لکیریں بھی گن کر بتا دیتا ہے اور عہدِ رفتہ کے اثرات بھی۔ یہ بتائے گا کہ زخم بھر گئے ہیں، ساتھ ان کے نشانات بھی دکھائے گا اور زخم دینے والے کو بھی بلا لائے گا۔ آپ اس کے سامنے کھڑے ہو کر ماضی، حال، اور مستقبل کسی بھی وقت میں جا سکتے ہیں۔ آئینہ آپ پر ثابت کرتا ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر