مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا حقیقت کیا فسانہ ؟۔۔۔ گلزار احمد

بات یہ ہے کہ جب ڈیرہ میں فی الحال یہ بیماری معلوم کرنے کی کِٹ ہی نہیں تو پھر اس کو ہمارے رپورٹر کیسے کرونا بنا دیتے ہیں۔

میں نے کل ایک پوسٹ فیس بک پر اپلوڈ کی تھی جس میں حکومت سے اپیل کی کہ وہ کرونا وائرس کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پبلسٹی پر پابندی لگا دے اور حکومت خود محکمہ صحت کا ترجمان مقرر کرے جو اگر ضروری سمجھے تو نیشنل سرکٹ پر آ کے قوم کی رہنمائی کردے۔ بہر حال میری بات حکومت تک پہنچتی بھی ہے یا نہیں کیونکہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ۔

مگر میں آج آپ کو انڈیا کے ایک ڈاکٹر
Biswaroop roy chowdry
کی اس وائرس کے متعلق باتیں بتاتا ہوں جو یو ٹیوب پر انٹرویو کی شکل میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے جب سے یہ دنیا بنی ہے لاکھوں وائیرس بھی موجود ہیں ۔ ہمیں بچپن میں کئی دفعہ فلو ہوا ہو گا جس میں کرونا بھی شامل ہو گا اور خود بخود ٹھیک ہو گیا ہو گا کیونکہ یہ 72 گھنٹے سے زیادہ نہیں رہتا۔

یہ عام وائرس ہے جس سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔اس سے ایک ھزار گنا خطرناک تو TB ہے جس سے ہر سال دنیا میں 15 لاکھ لوگ مر جاتے ہیں۔ صرف انڈیا میں پانچ لاکھ لوگ ٹی بی سے سالانہ مرتے ہیں۔

کرونا سے اموات پانچ چھ ھزار ہوئی ہونگی۔ اصل سوال یہ ہے کہ کرونا کا میڈیا پر قیامت خیز ہنگامہ کیوں ہے؟ ڈاکٹر چوہدری نے جواب دیا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کرونا وائرس کو معلوم کرنے کا Kit اب دریافت ہوا ہے جس کی مارکیٹنگ کرنی ہے اور پھر ویکسین بنانے پر حکومتوں سے اربوں لینے اور کھربوں کمانے ہیں ۔

ابھی یہ لائنیں لکھ رہا تھا کہ خبر آ گئی ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے اب مبارک بھی قبول فرمالیں۔ ڈاکٹر چوہدری نے ایک مثال دیتے ہوے کہا کہ 1984ء میں HIV بیماری بیچنے کے لیے ایسا ہی ہوا تھا اور خوب hype create کیا گیا۔

اس وقت امریکہ اور فرانس کے مابین ایک میمورینڈم سائین ہوا کہ hiv کی دوائیوں کے کاروبار سے دونوں ملک آدھا آدھا حصہ کمائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پچھلے 35 سالوں میں ایک بھی ریسرچ یہ نہیں ثابت کرتی کہ Hiv سے کوئی مرا ہو یا کسی کے جسم میں پایا گیا ہو۔ ہاں AIDS سے لوگ مرتے ہیں کیونکہ جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ اس وقت hiv کا کہا گیا کہ جنوبی افریکہ میں پیدا ہوا مگر وہاں کے صدر نے ماننے سے انکار کر دیا تو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔

میڈیسن کمپنیاں انسانی زندگی سے کیسا کھلواڑ کر رہی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔پہلے بیماری بیچی جاتی ہے اور اس کے بعد دوائیاں بیچ کر کھربوں کماۓ جاتے ہیں۔ خیر ہم یہ کھیل تو بند نہیں کر سکتے مگر کچھ سوچ تو سکتے ہیں۔ گزشتہ شام ہمارے سوشل میڈیا نے ڈیرہ میں اعلان کیا کہ کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آ گیا۔

میڈیا کے ماہرین کے درمیان خوشی کی لہر دوڑ گئی جیسے عید کا 29 کا چاند نظر آیا ہو اور مسلسل ھزاروں لوگوں کو یہ خوشخبری فارورڈ کی گئی۔ پھر ہمارے راوی مریض کے ساتھ چلتے رہے اور راستے میں میسیج کی فائرنگ جاری رکھی اور بالآخر مفتی محمود ہسپتال پہنچے اور وہاں سے کھڑے کھڑے آنکھوں دیکھا حال نشر کیا کہ جونہی یہ مریض ہسپتال میں پہنچا وہاں سے نرس اور اٹینڈنٹ لڑکا بھاگ گیے مریض اور ہمارے راویان وہاں حیران و پریشان کھڑے تھے اور یہ میسیج ہزاروں میں شئیر ہوا۔ پھر بتایا گیا کہ مریض دبئی سے آیا تھا اور وہاں اس کے ٹیسٹ کلیر اورٹھیک تھے ہاں سگریٹ کا عادی ہونے کی وجہ سے کھانسی ہے۔ صبح تک انتظار کے بعد DHO نے بتایا کہ مریض تو نارمل ہے تاہم پھر بھی اس کے ٹیسٹ نیشنل لیبارٹری بھیج دیے گیے ہیں کہ پتہ لگایا جا سکے کیا بیماری ہے؟۔ ساری رات میرے فیس بک فرینڈز مجھ سے پوچھتے رہے کہ آپ بتائیں یہ بات سچ ہے یعنی عید کا چاند نظر آیا کہ نہیں کیونکہ انہوں نے عید نماز کی تیاری کرنی ہے اور یہ خبر آگے بریک کرنی ہے۔

بات یہ ہے کہ جب ڈیرہ میں فی الحال یہ بیماری معلوم کرنے کی کِٹ ہی نہیں تو پھر اس کو ہمارے رپورٹر کیسے کرونا بنا دیتے ہیں۔ اب ہمارے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائیندے OPD پر دن رات کھڑے رہینگے اور کسی کی کھانسنے کی آواز بھی آئی تو ہمارے سر پر بریکنگ نیوز مار پھینکے گے اور سب سے پہلے کا خطاب پائیں گے۔ میرا خیال ہے ابھی پاکستان میں کرونا سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا میڈیا پینک پھیلا کر لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا رہا ہے۔

افسوس۔۔ یہ وہ میڈیا ہے جس کو ہم پڑھتے وقت Art of enlightenment کہتے تھے ۔کیا پتہ تھا آگے جا کر لوگوں میں پینک اور ہراسمنٹ پھیلانے کا سبب بنے گا۔چین کا پورا صوبہ لپیٹ میں آیا مگر چینیوں نے ڈسپلن اور صبر کے ساتھ اس بیماری پر قابو پالیا اور صوبہ ووہان کلیر کر دیا۔

ہم مسلمان ہیں ۔قوم میں ہمت اور جذبہ پیدا کریں اگر کوئی تکلیف آتی ہے تو اللہ ہمارے ساتھ ہے وہ ٹال دے گا۔ڈاکٹروں کو اپنا کام کرنے دیں اگر ان کو میڈیا کی مدد کی ضرورت ہو گی تو بلا لیں گے۔ ہماری عقل تو اتنی ہے کہ جب کل چھٹیوں کا اعلان ہوا تو کسی سکول کے لڑکے یہ نعرہ مارتے نکلے۔۔کرونا وائرس زندہ باد۔۔

%d bloggers like this: