( سکھر میں پولیس کی چند سیٹوں پر ملازمت کے حصول کیلئےپڑھے لکھے، ڈگری یافتہ جمِ غفیر کو منتشر کرنے کیلئے پولیس اور رہنجرز کا لاٹھی چارج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
مملکتِ خداداد پاکستان میں زندگی جس قدر اذیت و ذلت کا روپ دھار چکی ھے۔ اس کی تفصیل بیان کرنا تو کجا محض ذکر کرنے سے کلیجہ منہ کو آتا ھے۔ کیا انسانی المیہ ھے کہ یہاں یا تو بچے اس لئے تعلیم حاصل نہ کر سکیں کہ ان کے والدین تعلیمی عیاشی کے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکنے کے متحمل نہیں ہوتے ۔ بے شمار بچے ہیں جو دیکھ سکتے ہیں۔ جن کے آنکھوں کی بینائی صحیح و ثابت ھے مگر وہ اپنے سامنے موجود کسی کتاب اور سامنے دھرے کسی اخبار کے مندرجات/الفاظ پڑھنے کے قابل ہیں۔ اس طور ان کی آنکھوں کی روشنی جہالت کے اندھیرے پاٹنے سے قاصر ھے۔۔
یا پھر اس وطن میں پڑہائی کا مقصد انسان بننے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکنے کی بجائے روٹی روزی کا حصول اور پیٹ کے تنور کی آگ بجھانا ھو۔ یہاں چونکہ طبقاتی نظام ہے۔ ہر چیز، ہر پیشے اور ہر جذبے کا کردار طبقاتی ھے تو تعلیم کا حصول اور تعلیم کا نظام بھی طبقاتی ھے۔ یہاں پڑہائی اس لئے نہیں پڑہائی جاتی کہ سماجی شعور اور ادراک حاصل ہو بلکہ اس لئے پڑہائی جاتی ھے کہ پڑھے لکھے نوجوان ، تازہ دم اور توانا مزدور سستی مزدوری کا ایندھن بن کر کم اجرت میں اپنی محنت پیسے والے کے ہاتھوں بیچنے پر مجبور ھوں۔۔۔۔ اس کیلئے نظامِ سرمایہ کے خبیثوں نے اپنی مجرمانہ دانش سے میرٹ کا ایسا میکنزم بنایا ہوا ھے کہ جسے پڑھے لکھے(درسی کتابوں کے اسباق طوطوں کی طرح رٹ رکھنے والوں ) نے اپنی قابلیت و صلاحیت جانچنے اور اپنے قاتل مسیحاؤں (حکمرانوں) کے انصاف کا میعار بنا کر ان کا احسان سمجھ لیتے ہیں ۔ حالانکہ میرٹ کے ایسے ضابطوں کو پھاڑ پھینکنا چاہئیے جن کی وجہ سے ان باتوں پر غور ھی نہ کیا جا سکے کہ اس عمر تک پہنچنے والے نوجوان سکول کیوں نہ داخل ہو سکے؟ سکول داخل ہو بھی گئے تو کالج اور یونیورسٹی تک کیوں نہ جا سکے؟ اگر کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ بھی گئے تو فیل کیوں ہوئے اور پاس ہوئے تو زیادہ نمبر کیوں نہ لے سکے؟ ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگر بفرضِ محال میرٹ کی اسی مجرمانہ اور حکمرانہ دانش کو ایک لمحے کیلئے تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر سوال اٹھتا ھے کہ کیا یہاں پڑھ نہ سکنے والے، فیل ہونے والے اور کم نمبر لینے والے گوشت پوست کے انسان نہیں ہیں ؟ ان کو بھوک نہیں لگتی؟ ان کے کسی سے رشتے ناطے نہیں ہوتے؟ ان کو کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی؟ یہ بیمار نہیں ہو سکتے؟ ان کا ایکسیڈنٹ سے دوچار ہونا ممکن نہیں ؟ انہوں نے شادیاں نہیں کرنی؟ ان کے بچے نہیں ہونے؟ ان کے بچوں نے ان سب اذیتیوں کے گھن چکر میں نہیں رہنا ؟ خلاصہ کیا ان کی زندگی کوئی زندگی نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں اس طبقاتی نظامِ زر میں ، اس نظام پر یقین رکھنے والوں اور اس نظام کے گماشتہ و رکھوالوں کے نزدیک غریبوں کے بچے انسان نہیں ہوتے۔ ان کو زندگی گزارنے کا حق تو کیا جینے کا بھی کوئی ادھیکار نہیں۔ تبھی تو انہیں اپنی پیدائش سے لیکر اپنے مر جانے تک روز روز مرنا پڑتا ھے۔
لیکن پھر انقلابِ روس کے بانی کامریڈ ولادیمیر لینن کے بقول سرمایہ دار بالادست طبقے کا المیہ یہ ھے کہ غریبوں کو بھوک بھی لگتی ھے اور وہ جینا بھی چاہتے ہیں۔۔۔۔”
محنت کش طبقے کے انسانوں کا ایک اعزاز ھے کہ وہ تمام ذلتوں، تمام دکھوں اور تمام تکلیفوں کے باوجود اپنے جینے اور اپنے جیون کو بہتر سے بہتر بنانے کے حق سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اور زخمی و مجروح ہو کر گرتے پڑتے بھی ہیں مگر پھر اپنے زخموں اور سسکیوں سے اک امید بھی کشید کرتے ہیں۔ ایک وقت آتا ھے کہ ان کی یہ امید ان کی طاقت بنتی ھے۔ ایسی طاقت جو ظالم اور بالادست طبقے پر فتح کا یقین بنتی ھے۔۔۔۔۔۔۔
محنت کش طبقے کی نفرت کے غصہ میں بدلنے، غصہ کو نفرت میں، نفرت کو امید میں، امید کو یقین میں اور یقین کو طبقاتی نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ سماج کے فتحمند ہونے میں دیر ھے اندھیر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامور انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے اسی لئے تو کہا تھا کہ
پل بھر کا مہماں ھے اندھیرا ۔۔۔ کس کے روکے رکا ھے سویرا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر