نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عظمتیں کبھی مستعار ملتی ہیں نہ کبھی بھیک میں ۔۔۔ رؤف لُنڈ

ضرورت اس پل اور لمحے کی انتظار میں کڑھتے رہنے اور سسکتے رہنے کی بجائے اپنے طبقے کی طاقت اور شکتی مجتمع کرنیکی جدوجہد کرنے کی ھے۔

چلی میں 8، مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے ریلی میں لاکھوں خواتین شریک نے شرکت کی۔ یہ خواتین بھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے بھی مذاہب میں کئی کئی فرقے اور مسلک ہیں۔ چلی میں بھی ٹیلیویزن چینل ہیں۔ وہاں بھی مختلف ایشوز پر تجزیہ و تبصرہ کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ وہاں بھی ان چینلز پر اینکرز موجود ہیں۔ یہاں زندگی ہم سے اور دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت آگے ہے۔ مگر یہاں بھی خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ یہ لاکھوں خواتین کسی کمپنی کی مشہوری میں سڑکوں پہ نہیں آئیں۔ یہاں بھی عام خواتین، محنت کش خواتین، کھیت مزدور خواتین، کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین تنخواہوں کی کمی، بیروزگاری کی ذلت ، مہنگائی کی اذیت کا شکار ہیں۔ کیونکہ ان سب کو اس ذلت میں رکھنے والی اشرافیہ موجود ھے۔

اس اشرافیہ یعنی بالادست طبقے کے مرد اور ان کی خواتین موجود ہیں جو یہاں کی محروم خواتین کے رزق اور وسائل پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی زندگی کی بے پناہ لش پش کے ہوتے ہوئے بے گھری موجود ھے۔ کیونکہ یہ سب نظامِ سرمایہ کے تسلط کا شکار ہیں۔ یہ طبقاتی نظام کے عذاب کے نشانہ اور زد پہ ہیں۔۔۔۔۔

یہ کیسے ممکن ھے کہ کسی خطے میں کوئی بلا موجود ہو اور وہاں کے لوگ ، وہاں کی عوام اس بلا سے محفوظ رہ کر اس کی خوراک نہ بنتے ہوں ؟ یا یہ بلا کسی منت سماجت ، تعویذ گنڈے اور پھونک مارنے سے ٹل جائے۔ اسی لئے تو عظیم انقلابی استاد کامریڈ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ” آج تک کسی بلا نے اپنے پنجے کاٹ کے نہیں دیئے بلکہ آگے بڑھ کر پنجے کاٹنے پڑتے ہیں۔۔” سرمائے اور طبقے کی ان بلاؤں، اشرافیہ اور بالادست طبقے کا اختیار، اقتدار ،استحصال اور جبر کے چھن جانے کا یہی خوف ہوتا ھے کہ جس کی وجہ سے وہ مختلف نان ایشوز کو چھیڑ کر، اپنی دانش کی خباثت سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو باہم دست و گریباں رکھ کر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔۔۔۔۔

مگر ان کے عذابوں ، ان کی ذلتوں اور اذیتوں کا شکار لوگ مرد ہوں یا خواتین کسی حس اور ادراک سے محروم کوئی روبوٹ نہیں ہوتے بلکہ انسان بھی ہوتے ہیں۔ وہ تمام تر ذلت سہتے ہوئے بھی اپنے دشمن کو پہچاننے اور اپنی نجات کی سوچ سے دستبردار نہیں ہوتے۔ وقت لگتا ھے، وقت گزرتا رہتا ھے۔

بے شک حکمرانوں کا بھی ایک وقت ہوتا ھے۔ مگر پھر وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا۔ وقت کروٹ بدلتا ھے۔ وقت کی کروٹ پسے ہوؤں کو شکتی دیتا ھے۔ان کے زخموں کی ٹیس کی ہر یاد ان کے سامنے رکھتا ھے۔ بدلتا وقت ان محروموں و مظلوں کو بھی بدلتا ھے اور بدلہ لینے کی تحریک دیتا ھے۔ پھر جب محروم طبقہ تحریک کے میدان میں اترتا ھے تو ساری شکتی، ساری طاقت اس کے چشمِ ابرو کے اشارے کی محتاج بن جاتی ھے۔ ایسے کئی لمحے کئی پل تاریخ کی گھڑیوں میں محفوظ ہیں کہ جب اک پلک جھپکنے کی دیر میں تخت زمیں بوس ہوتے ہیں اور تاج ٹھوکروں کی زد میں۔۔۔۔۔

ضرورت اس پل اور لمحے کی انتظار میں کڑھتے رہنے اور سسکتے رہنے کی بجائے اپنے طبقے کی طاقت اور شکتی مجتمع کرنیکی جدوجہد کرنے کی ھے۔ ایسی جدوجہد جس سے جبر کی ہر شکل کا خاتمہ ہو۔ جسے عرفِ عام میں سرخ سویرا اور سوشلسٹ انقلاب کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

سرخ سویرا آوے آوے۔۔۔۔۔۔۔ کالی رات جاوے جاوے
انقلاب انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوشلسٹ انقلا

About The Author