مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔۔۔ گلزار احمد

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایسی لڑکیوں نے ۔۔میرا جسم میری مرضی ۔۔ کا نعرہ ایجاد کیا اور معاشرے کو للکارا کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل نہ دے۔

My Body My Choice دراصل دراصل ایک کتاب کا نام ہے جو ایک کینیڈین خاتون رائیٹر رابن سٹیونسن Robin Stevenson نے لکھی ہےاور اسکا ترجمہ ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ ہے۔

اس کتاب لکھنے کا مقصد خواتین کے بچے پیدا کرنے اور اسقاط حمل کے حقوق سے تھا۔ رابن سٹیونسن پیدا تو انگلینڈ میں ہوئی مگر جلد اس کا خاندان کینیڈا چلا گیا جہاں وہ پلی بڑھی اور تعلیم حاصل کی۔ اس نے یونیورسٹی میں سوشل ورک اور فلاسفی میں اعلی تعلیم حاصل کی اور بچوں کے لیے کئی بڑی مقبول کتابیں لکھیں۔ میرا جسم میری مرضی۔

کتاب لکھنے سے اس نے یہ سمجھانے کی کوشش کہ اسقاط حمل کرانے والی خواتین کو بدنام نہ کیا جاے تاکہ وہ محفوظ میڈیکل پروسیجر کے ذریعے اسقاط حمل کرا سکیں ورنہ ایسا کرتے وقت ان کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے وہ امریکہ اور کینیڈا کے معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اگر کوئی حمل والی خاتون بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تو اسے قانونی طور پر یہ حق حاصل ہو کہ وہ محفوظ طریقے سے اسقاط حمل یا abortion کر سکے ۔

بعد میں چند شرائط کے ساتھ قانونی اجازت دے بھی دی گئی۔ کتاب کے مطابق امریکی اور کینیڈین معاشرے میں فیملی پلاننگ اور اسقاط حمل سے متعلق معاملات کو عورتوں کا جرم سمجھا جاتا رہا ہے جو غلط ہے اسلیے اسقاط حمل اور بچوں کو پیدا کرنے سے متعلق عورتوں کو چوائیس یا مرضی کا حق دینے کے لیے ماضی میں خواتین کی تحریکیں شروع کی گئیں۔ اس نے کتاب میں کئی عورتوں کی کہانیاں لکھی ہیں جو معاشرے میں اذیت کا شکار رہیں۔

مگراس کی بنیادی وجہ تو اس معاشرے کا فری سیکس طرز عمل ہے جہاں لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ اپنی مرضی سے بغیر نکاح کے رہنا جرم تو تصور نہیں کیا جاتا مگر اس کے جو بھیانک نتائیج نکلتے ہیں ان سے لڑکیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بے نکاہی لڑکی کا بچہ پیدا ہو تو شوھر اس کی پرورش کی ذمہ داری نہیں اٹھاتا اور ماں کو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنا پڑتا ہے۔

معاشرے کے بعض لوگ بھی اس کو stigma یا بدنما داغ سمجھنے لگتے ہیں اس طرح ایسی لڑکی بہت سی مصیبتوں میں گھر جاتی ہے۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے لڑکی اسقاط حمل کا فیصلہ کر کے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتی ہے لیکن معاشرے کا ایک طبقہ اسقاط کو قتل سمجھتا ہے اور اس طرح ایسی لڑکی کئی اور مصائیب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایسی لڑکیوں نے ۔۔میرا جسم میری مرضی ۔۔ کا نعرہ ایجاد کیا اور معاشرے کو للکارا کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل نہ دے۔

حالانکہ اس نعرے سے اصل فاعدہ اس معاشرے کا مرد اٹھاتا ہے کہ ایک طرف وہ عورت کی جسم سے pleasure حاصل کرتا ہے دوسری طرف کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں اور جب چاہے اس عورت کو اس مشکل میں چھوڑ کر دوسری عورت کے پاس چلا جاے اب یہ عورت اسقاط حمل کراے یا بچہ پالے اس سے مرد فارغ ہے۔

ان حالات کے پیش نظر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور کینیڈا میں جو تنظیمیں اسقاط حمل کے خلاف Anti abortion تحریکیں چلاتی رہی ہیں ان کا کیا موقف ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے حمل ہونے کے ساتھ ایک زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے اور اسقاط حمل اس زندگی کو ختم کر کے بچوں کے قتل کا مجرم بنتا ہے ۔ پھر یہ لوگ اور بہت سے دلائیل اور ثبوت پیش کرتے ہیں ۔

ان کے مطابق اسقاط حمل کرانے والی عورتیں ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں اور آخر خود کشی کر کے اپنا خاتمہ کرتی ہیں۔اس کے علاوہ اسقاط سے عورتوں میں کینسر پیدا ہوتا ہے۔ایک اور بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسقاط حمل کرانے والی عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور وہ ائیندہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔اس کے علاوہ اسقاط کے دوران جو بے بی ہوتا ہے اس کو اذیت دی جاتی ہے جو غلط ہے۔

اسقاط حمل کے مخالفت کرنے والی تنظیموں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ اور کینیڈا میں جگہ جگہ جو اسقاط کے کلینک کھلے ہیں ان کو بند کیا جاے تو اسقاط حمل کرانے والی عورتوں میں کمی واقع ہو گی۔ خیر یہ مغربی عورتوں کے معاملات ہیں ہم تو اس میں دخل نہیں دے سکتے البتہ رابن سٹیونسن نے یہ کتاب۔۔
My body my choice.
لکھ کر ایک تجزیہ کر کے انکے اپنے معاشرے کی خواتین کے حقوق اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

%d bloggers like this: