ذوالفقار علی
حالیہ دنوں میں منعقدہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں ہنگامہ خیز تقریروں کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہوتا رہا ۔اس ہال کی گہما گہمی سے تھوڑا سا پرے چار ممالک کے درمیان گفت و شنید ہوئی جس میں جاپان، امریکہ، بھارت اور آسٹریلیا کے فارن سروس عہدیداران نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں چین اور امریکہ کی تجارتی تنازعہ، پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور اس سے نمٹنے کا طریقہ کار، تارکین وطن کا دن بدن سنگین ہوتا ہوا مسئلہ، آبنائے ہرمز میں حالیہ کشیدگی کے تناظر میں تیل کی بلا تعطل سپلائی ، مختلف ممالک کے درمیان تصادم کے خدشات اور ماحولیات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات اور لائحہ عمل پر جاندار بحث مباحثہ ہوا۔
جاپان، بھارت،امریکہ اور آسٹریلیا کے وزرائے خارجہ نے اس اہم ترین اور غیر معمولی اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں جن مسائل پر بات کی اس سے ہمیں مستقبل قریب میں عالمی سیاست کے افق پر ہونے والی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان ڈائیلاگ میں چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور جدید اسلحے کی دوڑ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔
اس اجلاس کے ایک دن بعد جاپان کے وزیراعظم نےبرسلز میں یورپی کمیشن کے صدر جون کلاڈ جنکر سے ملاقات کی اور ” یورپ ایشیا کنیکٹیوٹی پلان ” پر دستخط کئے۔کہا جاتا ہے یہ منصوبہ چین کے ” بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے کے جواب میں بنایا جا رہا ہے۔
اس تقریب کے دوران یورپی کمیشن کے سربراہ اور جاپان کے وزیراعظم نے چین کا نام لئے بغیر بالواسطہ طور پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیراعظم شنزو ایبے نے چین کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ” چاہے وہ ایک روڈ ہو یا بندرگاہ جب یورپی یونین اور جاپان کسی منصوبے کے تعمیر کی ذمہ داری لیتے ہیں تو ہم انڈو پیسیفک سے مغربی بلقان اور اور براعظم افریقہ تک پائیدار اور جامع ‘ جڑت’ کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے ایک اور اہم بات بھی کی کہ بحیرہ روم سے لیکر بحر اوقیانوس تک بحری راستے کھلے رہنے چاہئیں۔
اس اجلاس کے اختتام پر یورپی کمیشن کے سربراہ نے بھی چین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین ” قرض کے پہاڑ” نہیں چڑھاتا بلکہ متناسب انداز سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کرتا ہے اور آئندہ بھی اسی پالیسی پر عمل کیا جائیگا۔
اسی سے ملتا جلتا بیان آسٹریلیا کے وزیراعظم نے بھی ایک انڈین اخبار کو بذریعہ ای میل دیا تھا۔
اس سے پہلے جاپان کے وزیر خارجہ نے بھی ایک بیان دیا تھا جس میں شمالی کوریا کی بجائے چین کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ کہا تھا۔
اسی طرح امریکہ نے بھی دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں چین کو اپنے لئے ایک ایسا حریف قرار دیا تھا جو امریکہ کیلئے مستقبل میں درد سر بن سکتا ہے۔
اس کے جواب میں چین نے بھی کہا کہ بین الاقوامی سٹریٹیجک مسابقت اپنے عروج پر ہے۔
شاید اسی وجہ سے امریکہ اپنی حربی صلاحیت اور دفاعی حکمت عملی تیزی سے تبدیل کر رہا ہے وہ اب باہر بیٹھے دہشت گردوں پر توجہ دینے کی بجائے اپنے ملک کے اندر کی صورتحال اور ریاست امریکہ کی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کی سعی کرتا نظر آ رہا ہے۔
جس کی وجہ سے اس کی عالمی سطح پر کئی دہائیوں سے طاقت کی اجارہ داری پر بہت سارے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔جس کے اشارے ہمیں یو کرائن سے لیکر شام اور اب افغانستان اور ایران کے تنازعات میں ایک حد تک امریکہ کو دور رکھنے کی حکمت عملی سے واضح ہوتے ہیں۔
امریکہ اب ڈائریکٹ ملوث ہونے کی بجائے دوسرے ممالک کو شہ دے کر اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
مگر یہ حکمت عملی امریکہ کی ‘ مطلق طاقت اور اجارہ داری’ کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے ۔ یہ پالیسی اس منظر نامے کی غماض ہے کہ اب امریکہ کے ساتھ ساتھ طاقت کے نئے مراکز بھی اپنے ہونے کا شدید احساس دلا رہے ہیں۔
دنیا اب ایک نئی سرد جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے جس میں ایک طرف امریکہ، انڈیا، یورپی یونین کے کچھ ممالک، آسٹریلیا، سعودی عرب اور جاپان ہیں تو دوسری طرف چین، ایران، روس اور کسی حد تک پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔
پاکستان اس سرد جنگ میں ایک بار پھر اپنی جغرافیائی مجبوری کی وجہ سے شامل ہونے جا رہا ہے جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں خاص کر انڈیا سے تعلقات کے باب میں مزید کشیدگی اور سرد مہری کا اندیہ مل رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی دن بدن کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور اندرونی تنازعات مزید پیچیدہ صورتحال کو جنم دیں گے۔
شاید اس پیچیدہ صورتحال کا ادراک پاکستان کی طاقتور اشرافیہ کو بھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان نے چین اور امریکہ سے اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔
اب ریاست پاکستان اس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے پیچھے گہری کھائی ہے اور آگے اندھا کنواں ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ