عجب خان کے نام میں کتنا رومانس ہے؟ لاھور میں 1961ء میں عجب خان فلم بنی تھی جس کی تھیم برطانوی راج کے خلاف تھی ۔اس فلم میں اس وقت کے چوٹی کے اداکاروں لالہ سدھیر ۔حسنہ ۔نذر ۔طالش ۔ساقی ناصرہ نے اپنے فن کے جوہر دکھاے ۔پھر 1971ء میں پشتو فلم عجب خان آفریدی بنائی گئی جس میں یاسمین خان۔آصف خان اور صابرہ سلطانہ جیسے فلم سٹار شامل تھے۔
عجب خان آفریدی بھی عجیب کردار ہے جس نے 1923ء میں برطانوی راج کے دوران کوہاٹ سے میجر ایلس کی سترہ سالہ بیٹی مولی ایلس Molly Ellis کو اغوا کر لیا تھا۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔
میں جو بات بتانے چلا ہوں وہ یہ ہے کہ عجب خان کے نام کے ساتھ میرا بڑا رومانس وابستہ رہا ہے کیونکہ میں ماضی میں سرحد کے نام سے بنی ایک خوبصورت فلم بھی دیکھ چکا ہوں ۔
سرحد اصل میں خیبر پختونخوا کا پرانا نام ہے اور اس صوبے سے مجھے گہری محبت ہے۔سرحد فلم آپ کو اس لیے یاد دلائی کہ اس فلم کا ایک گانا مجھے بہت پسند ہے جو میں اب بھی سنتا ہوں یہ اتنا مقبول گانا ہے کہ اس گانے کو ناہید اختر نے بھی دوبارہ گایا ہے۔
گانا اس طرح ہے؎ تجھ پہ قربان ۔شیردل خان۔ میں تیری تو میرا جاناناں۔۔۔اس سے انکار نہیں تجھ سے مجھے پیار ہے۔ دل میرا تیری قسم تیرا طلب گار ہے۔ تو میری جان ۔میرا ارمان شیر دل خان۔ میں تیری تو میرا جانانہ۔۔۔
سچ پوچھیں تو اس گانے کو سن کرجس شخص کا امیج میرے ذھن میں بنتا ہے وہ ہمارا اپنا عجب خان ہے۔ یہ ملک کا عظیم پینٹر ہے جس کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی دھرتی سے ہے جس کی تصاویر کی نمائش ملک کے کونے کونے میں ہوتی ہے۔
آج میں چھوٹے بازار سے گزر رہا تھا تو اچانک ہائیر سیکنڈری سکول نمبر تین جو ماضی میں خالصہ سکول کہلاتا تھا کے پرنسپل ڈاکٹر ندیم سے کیا وعدہ یاد آ گیا۔ میں جب کچھ عرصہ قبل اس تاریخی سکول کی وڈیو بنانے ان سے ملا تھا تو اپنے ریکارڈنگ کے کام میں بہت مصروف تھا اور ڈاکٹر ندیم سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے رفو چکر ہو گیا تھا۔
آج اچانک سکول آ دھمکا تو ڈاکٹر ندیم بہت خوش ہوۓ اور دیر تک تعلیمی نظام کی بہتری سے متعلق ہم گفتگو کرتے رہے۔ اچانک مجھے عجب خان یاد آ گیے تو پرنسپل نے انہیں فورا“ بلا لیا اور پھر بہت دیر ہم ڈیرہ میں آرٹس کونسل کی بلڈنگ نہ ہونے کا رونا روتے رہے۔
کبھی بھکر ڈیرہ ڈویژن کے ساتھ شامل تھا اب وہاں آرٹس کونسل اور ڈیرہ محروم۔ بندہ کس چیز کا ماتم کرے ڈیرہ میں بنا بنایا ادارہ۔دامان آرٹس کونسل رجسٹرڈ موجود تھا پھر یوں ہوا کہ وہ ادارہ ہماری نااہلی کی وجہ سے کہیں غائب ہو گیا۔
چونکہ عجب خان آفریدی نے مولی ایلس کو اغوا کیا تھا اس لیے مجھے اپنے عجب خان پر بھی شک ہوا کہ دامان آرٹس کونسل اس نے اغوا نہ کر لی ہو کیونکہ عجب خانوں میں اغوا کرنے کے جراثیم بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں مگر یہ درویش تو خود میری طرح جوگی بنے شھروں شھروں گھومتا پھرتا ہے۔
میں نے سوچا ڈیرہ میں ایک ائیرپورٹ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی تھی اور پھر بند کر دیا گیا حالانکہ گوگل سرچ پر نظر آ جاتا ہے بس خالی خالی سنسان سنسان۔ اب سنا ہے علی امین خان اس ائرپورٹ کو کھلوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
عجب خان ساری بے سروسامانی کے باوجود ڈیرہ کی اعلی تعلیم یافتہ نسل کو پینٹنگ کی تربیت دے رہا ہے اور بعض بچے اور بچیاں تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف ہو گیے ہیں۔
عجب خان کہنے لگا ہم چھ ھزار سال پرانی تہزیب کے وارث ہیں مگر یہاں عجائب گھر تک قائم نہ ہو سکا آرٹس کونسل نہ بن سکی حالانکہ دو تین ھزار سال پرانی تہزیب والے بڑے بڑے عجائب گھر اور آرٹس کونسلیں کھول کے بیٹھے ہیں۔
میں نے کہا بھائی ہماری آواز پشاور کی بجاے پُشہ پل تک جاتی ہے اور اسلام آباد کی بجاے صرف چشمہ بیراج کو چُھو سکتی ہے یا تو سندھو دریا ہماری بات سمجھ سکتا ہے یا پشہ پل کے نیچے گزرنے والا رودکوہی نالا سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ دونوں ہماری ھزاروں سال پرانی تاریخ کے گواہ ہیں۔ باقی اللہ ہی اللہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر