تحریکیں ہمیشہ کسی بھی مخصوص خطے پر رہنے والوں کے مفادات کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ہوتی ہیں تاکہ اس خطے کی آواز اعلی حکام تک پہنچائی جائے مگر جو تحریکیں میں وادیِ سندھ کے خطے میں دیکھ رہا ہوں یہ ذاتی مفادات کی زیر نظر ، نظر آتی ہیں ہر فارغ رہنے والا شخص کاٹن کا سوٹ پہن کر وادی سندھ کے سرائیکی خطے (سرائیکستان) کی آواز بلند کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے زیادہ عرصے کی بات نہیں چند سالوں کی بات ہے جب جب یہ سرائیکی خطہ کسی مشکل میں پڑتا ہے تو یہ سب لیڈر شپ کا دعوی کرنے والے حضرات ایسے غائب ہو جاتے ھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگھ ۔۔۔۔
تحریک بلا مقصد و انا ہوتی ہے اور ہر وادی سندھ کے سرائیکی خطے سے جڑی ہر شہ سے محبت کا ثبوت دیتی ہے اس خطے پر بسنے والے ہر فرد اور ہر شخص سے محبت رکھتی ہے ایسی تحریک ھرگز فائدے کے نظر نہیں ہو سکتی جو خطے میں اپنے جلسوں ، تقریروں اور الفاظوں سے انتشار پہلائے ۔ برصغیر میں وادی سندھ پر سرائیکی خطہ ایک وجود کا حامل تھا اور دریاں کے قریب آباد رہنے والے سبھ لوگ اس خطے کا وجود تھے اور اپنی تہذیب و ثقافت کے پاسبان تھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سبھ سے پہلے پاکستان کا وجود تسلیم کیا اور ہجرت کر کے آنے والے ہزاروں مسلمانوں کو سینوں سے لگایا صرف اور صرف مسلمان کی بنیادپر ان میں اردو بھی تھے بنگالی بھی تھے اور پنجابی بھی تھے کیونکہ غلط تقسیم کی ریاست راجستان بھارت میں ہی رہ گئی لیکن اس ریاست سے جڑے کچھ شہر پاکستان کا حصہ بنے اور سرائیکی خطے کیساتھ ساتھ اور راجھستان اور سرائیکستان کے درمیانی جو شہر آئے ان میں آج بھی ان سب کو اہمیت کاحامل رکھا گیا اور چاہے جس بھی زبان سے منسلک خاندان اس خطے میں آ کر آباد ہوا یہاں کے لوگوں نے اپنی محبت اور ملنساری کا ثبوت دیا اور انہیں اپنا حصہ سمجھا لیکن ! تفریق رکھی گئی اور رکھی جا رہی ھے ۔۔۔۔۔
آزادی کی تحریک سے لے کر اب تک سرائیکی خطے پر آباد مسلمان جو اپنی تہذیب کے مالک تھے اور اپنی زبان و لجہہ سے منسلک تھے ان کی ثقافت کو اور ان کی زبان کوں ھجرت کر کے آباد ہونے والوں نے اپنی زبان کا حصہ بنانے کی کوشش کیں اور وادی سندھ کے سرائیکی خطے پر قائم بہت سے شہروں کا نام پنجاب سے تفویض کر دیا گیا لیکن پھر بھی صابر سرائیکی (وادی سندھ۔ سرائیکی خطے پر آباد لوگوں کو سرائیکی کہا جاتا ہے ماضی میں بھی اور آج بھی یہ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں) کہ انہوں نے اس نام کو تسلیم کیا گویا آج یہ خطہ بہت حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اس خطے کے تعلیمی اداروں، تھانوں ، گورنمنٹ کے اداروں، اور تجارتی مراکز پر قبضہ کرنے کے بعد اس خطےکر مزید سرائیکستان بننے کئ بجائے مسائلستان بنا دیا گیا تاکہ نا ھی اس خطے کے لوگ معاشی طور پر مستحکم ہوں اور نہ ھی ان کا وجود رہے اور وقت کی تیز رفتار انہیں روندتی چلی جائے۔
آج یہ سرائیکی خطے جس کے بہت سے شہروں کو پنجاب کا ٹائٹل دے دیا گیا ہے اور باقی بچ جانے والا سرائیکی خطے کی عوام اگر اس کا نام سرائیکستان رکھنا چاہتی ھے تو اسے تسلیم کرنے میں وللہ عالم ایسی کونسی تکلیف ہے اور اس کو لسانیت کا نام دیا جا رہا ھے۔ سرائیکی خطے کو پنجاب کا نام دینا لسانیت نہیں ؟ آج پوری دنیا میں پنجابی زبان سے منسلک افراد اس پنجاب کو پنجابی زبان بولنے والوں کی زمین بولتے ہیں کیا یہ لسانیت نہیں ؟
اگر سرائیکی خطے پر آباد لوگوں نے سب کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور سب کو عزت دی تو اس کے جواب میں سالوں کی نا انصافیاں کیا زیب دیتی ہیں ؟ کیا اپنے محسنوں کی آواز کو یہ کہہ کر کچلا جاتا ہے کہ یہ تو انڈیا کے ایجنٹ ہیں؟ معذرت کیساتھ آپ کے خاندانوں کے خاندان ابھی بھی انڈیا میں آباد ہیں اور آپ کی اب بھی ان سے مراسم ہیں تو کسی سرائیکی ایک فرد نے بھی پنجاب یا پنجابی کو کسی بھارتی ایجنسی کا ایجنٹ کہا ؟ نہیں ! کیونکہ سرائیکی خطے پر آباد ان لوگوں نے وفا کرنا سیکھی اور اپنے بزرگوں سے اچھے اصول سیکھے اور صبر کا دامن تھامے رہنا سیکھا جس کی مثال آج بھی زندہ ملتی ہے، سرائیکی خطے جو باقی رہ گیا ہے اس میں نا توں سڑکیں ہیں نا ھی بجلی کا پرسان حل ہے اور بہت سے علاقے تو آج بھی گیس سے مفلوج ہیں لکڑیاں چن کر اپنے بچوں کے لئتے کھانا پکاتے ہیں۔
ان کے بچے پڑھنے نہیں جاتے وہ جیسے بڑے ہوتے ہیں اپنے ماں باپ کیساتھ کاشت کاری میں مدد کرتے ہیں اور نا ھی ان لوگوں کے پاس تعلیم ہے ، نہ ہی معاشی طور پر مستحکم ہیں اور مشکل آنےپر انصاف کے دروازے بھی ان پر بند ہیں، انہیں پوری ملک میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرئ جانب جو سرائیکی خاندان یا ان کے بچے پڑھ گئے ہیں وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ملک سے باہر رہنے والے سرائیکی محنت مزدوری کر کے ہر ماہ کروڑوں روپے پاکستان بھیجتے ہیں۔ اور پاکستان میں رہنے والے سرائیکی مزدوری ، چوکیداری، ہیلپری ، ٹھیکیداری ، فیکٹری میں انچارج یا لیبر ملتے ہیں جو در حقیقت ملک کی ترقی میں اپنا خون پسینہ لگا رہے ہیں ۔ بر ہا افسوس کہ کسی حق کی آواز اٹھانے والوں کو غداروں کیساتھ منسلک کرنے کی سازشوں کا سلسلہ جاری و ساری رکھا ہوا ہے۔
سرائیکی تحریکیں چلانے والوں کو اپنے مفادات کو علیحدہ رکھتے ہوئے مخلص ہو کر حقیقی معنوں میں اس خطے پر آباد سرائیکیوں کے دکھ درد کم کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریلیاں جلسےجلوس سب پرانی باتیں ہیں چاہے وہ بھٹو کا دور ہو بی بی کا ہو نواز کا ہو یا کسی حکمران کا بھی دور ہو یہ سب ایسے ہی ہے کہ عوام کو لالی پاپ دیکھا کر خوش کر دیاجائے آج تک اس خطے کی محرومیوں کے لیے کسی نے در حقیقت کام ہی نہیں کیا جہاں کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں بچوں کے پڑھنے کے لیے نہ تو کتابیں ہیں نہ ہی اسکول ہیں اور نہ ہی بیٹھنے کے لئے اسکول میں کرسیاں ہیں کسی درخت کے سائے کے نیچے اگر کوئی استاد پڑھانے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اسے سیاسی اثر و رسوخ کیساتھ منع کر دیا جاتا ہے یا وہ آواز جواستاد کی ہوتی ہے خاموش ہو جاتی ہے۔
ہم جھنڈے ، جلسے ، چاول دیگیں بانٹنے میں لاکھوں لگا دیتے ہیں لیکن ذرا یہ سوچیں اگر یہ سب تحریکیں مل کر معاشی طور پر ہر گھر کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں تو کیا یہ خطے ترقی نہیں کر سکتا جس کی عوام کی محنت دبئی جیسے شہر ملتے ہیں کراچی ، لاہور ، اسلام آباد میں بلند و بالا عمارتیں ملتی ہیں وہ عوام اسی سرائیکی خطے کے فرد ہیں وہ دنوں میں اس خطے کو سونا بنا سکتے ہیں اور تعصبات کی ہوا دینے والی تحریکیں نہ ہی خطے کی حامی ہیں اور نہ ہی وہ خطے کو مفاد دے سکتی ہیں وہ صرف اپنے مفادات کے لیے کام کر رہی ہیں ایسے تحریکیں وادی سندھ کے سرائیکی خطے کی نا تو وارث ہیں اور نہ ہی ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہے وہ صرف اور صرف اپنی دکانداری چمکانے کے لیے رات دن کوشاں ہیں۔ اگر کوئی مخلص تحریک بچتی بھی ہے تو وہ اپنی پالیسیاں ، منشور تبدیل کرے ضرورت اس وقت نسلوں کو اعلی تعلیم دینے کی ہے اور اپنے خطے کو حقیقی خطے بنانے کی ہے۔ باتیں سب تحریک کے لیڈران کرتے ہیں جو در حقیقت میری نظر میں لیڈر نہیں لیڈر وہ ہتا ہے جو درد وسیب رکھے اور اس درد کو مٹانے کے لیے دن رات ایک کر دے ناکہ اپنی مشہوری کے لیے لاکھوں روپے ایڈورٹائزمنٹ اور دفاتر اور ریلیوں جلوسوں میں نکال دے ۔
کسی مظلوم کے لیے آواز اٹھانا جہاد ہے اور یہ وہ مظلوم ہیں جنہیں پتہ ہی نہیں کہ تعلیم ہوتی کیا ہے ان کی زندگی اتنی ہے کہ صبح سے شام کھیتوں میں کاشتکاری کرنی ہے اور فصل کا انتظار کرنا ہے ۔۔ اور ہر فصل اچھی ہونے کے لیے اللہ سے دعا کرنی ہے۔ اس سارے معاملے میں کہیں بھی نا سیاست ملتی ہے اور نہ ہی کوئی تحریک ملتی ہے تقوی اور ایمان رکھنے والے لوگوں پر یہاں کے لوگوں کی اتنی آزمائشیں زیادتی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر