لاریب پیپلزپارٹی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے بعض جملے سیاسی اخلاقیات کے منافی اور اس پہ پی پی پی کے کارکنوں و بہی خواہوں کے بھنگڑے اور تائید بھی درست نہیں تھی۔
یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ خود یہ تحریر نویس بھی جذباتیت کاشکار ہوا’ قادر پٹیل کی تقریر سیاسی کارکن کے شایان شان نہیں تھی۔
خود قادر پٹیل کل یہ اعتراف کر چکے کہ انہیں جذبات پر قابو رکھتے ہوئے مناسب الفاظ میں وفاقی وزیر مراد سعید کی تقریر پر ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔
یہاں ساعت بھر کیلئے رک کر جوانسال وفاقی وزیر کی تقریر کے مندرجات ذہن میں لائیے۔ کیا مراد سعید کی یہ تقریر اور پچھلی تمام تقاریر جس کا نشانہ بھٹوز اور پیپلز پارٹی تھے وفاقی وزیر کے منصب کے شایان شان تھیں؟
صاف سیدھی بات ہے کہ نوجوان وفاقی وزیر قومی اسمبلی میں ہی نہیں ایوان سے باہر پریس کانفرنسوں اور خطابات میں جذبات کے گھوڑوں پرسوار ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی اس دن انہوں نے
” لاڑ کانہ کے کتوں اور سندھ کے کتوں جیسے ذومعنی الفاظ استعمال کئے”
۔ جواباً قادر پٹیل جیسا بالغ نظر سیاسی کارکن وہ زبان استعمال کر بیٹھا جو سیاسی کارکن کو زیب نہیں دیتی۔
ایک اور بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں’ نوجوان مراد سعید کی تقریر پر ان کے قائد اور پارٹی کے رہنما نہ صرف خوش ہیں بلکہ اس کا دفاع کر رہے ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کی لابی سے اپنی جماعت کے رکن قومی اسمبلی آغا سید رفیع اللہ کے ذریعے قادر پٹیل کی تقریر کے دوران ہی انہیں یہ پیغام بھجوایا
”سیاسی کارکن اور رکن قومی اسمبلی کو عامیانہ الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے”۔
یہ پیغام اس نوجوان سیاستدان نے اپنے رکن قومی اسمبلی کو دوران تقریر بھجوایا جس کی ذات’ شناخت اور دوسرے امورکی وفاقی وزیر نے بھد اُڑائی اور یہ پہلا موقع ہرگز نہیں تھا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بلاول ان کے خاندان اور پارٹی بارے زہریلے جملے اچھالنے والوں کی قائد تبدیلی کی طرف سے تحسین ریکارڈ پر ہے۔
پیپلز پارٹی کیلئے یہ پہلا موقع ہرگز نہیں جب اس کے مخالفین نے سیاسی اختلافات کا غصہ ذاتیات پر حملوں سے اُتارا ہو۔
پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو 27مولانا حضرات ان میں 6 کا تعلق مغربی پاکستان اور 21 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھانے مشترکہ فتویٰ جاری کیا
”پیپلز پارٹی کو ووٹ دینا کفر ہے اور جو لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے ان کے نکاح فسخ ہوجائیں گے”۔
پیپلز پارٹی کے اولین دور حکومت میں ہمارے اسلام پسند صحافیوں کے اخبارات وجرائد نے بھٹو صاحب کو گھاسی رام لکھا۔ ان کی مرحومہ والدہ کو ہندو اور تعلق ایک خاص بازار سے بتایا۔ مرحومہ بہن پر کیچڑ اُچھالا۔
پی پی پی کیلئے ہر وہ گالی روا رکھی گئی جسے سن کر بازار حسن کے کسبیاں بھی اُنگلیاں دانتوں کے نیچے داب لیتی ہیں۔
1972ء سے 1977ء تک کے اخبارات وجرائد بالخصوص اسلام پسندوں کے اخبارات وجرائد اُٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
ہمارے بعض دوست بھٹو صاحب کی جملہ بازی اور مخالفین کی انہیں دی گئی گالی یا خاندان کی کردارکشی کو ایک ہی پلڑے میں رکھ کر پیش کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں جس دن دو تقاریر ہوئیں اسی شام ایک ٹی وی چینل پر جو شریف فیملی کی جیب میں سمجھا جاتا ہے بھٹو مخالف ماہرین اور پیدائشی تجزیہ کاروں کیساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کے اولین دور میں پیپلز میڈیا سیل کے نام پر لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے ایک صاحب بھی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتے رہے۔
ان میں سے کسی شخص کو اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ کم ازکم یہ اعتراف ہی کرلیتے کہ ان کے تازہ محبوبان سول سپر میسی نے 1988ء سے 1999ء کے درمیان محترمہ بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ قابل مذمت تھی۔
یہ جماندرو تجزیہ کار ہوں دوسرے یا خود ہم بدقسمتی سے ہم سارے ذاتی پسند وناپسند’ محبت اور نفرت میں گرفتار ہیں ورنہ کڑوا سچ یہی ہے کہ جتنی کردارکشی اس ملک میں بھٹو خاندان کی ہوئی پاکستان کی معلوم سیاسی تاریخ میں کسی اور خاندان کو اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
پچھلے چند دنوں کے دوران کچھ دوستوں نے نون لیگ کی جانب سے عمران خان پر اُچھالے گئے سو قیانہ الزامات بارے بات کی تو ان کی خدمت میں عرض کیا۔
آپ یہ مت بھولیں کہ عمران خان پر لگائے گئے الزامات اور ذاتی حملوں پر ان کے ناقدین نے بھی اپنی تحریروں اور تجزیئوں میں اس کی نہ صرف مذمت کی بلکہ نون لیگ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
لیکن آپ
” تحریک انصاف کی صفوں اور حامی تجزیہ کاروں میں سے ایک ایسے شخص کا نام بتا دیجئے جس نے مریم نواز کیخلاف چلائی گئی مہم پر افسوس کا اظہار کیا ہو”۔
فقیر راحموں کہتے ہیں جس ملک میں وحشی جٹ اور مولا جٹ جیسی فلمیں کئی برسوں تک سینمائوں پر چلتی رہیں ‘ روزمرہ کی گفتگو میں گالی کا استعمال بے دریغ ہوتا ہو وہاں سیاسی کارکن آسمان سے آئی مخلوق نہیں’
مجھے ان سے اتفاق نہیں۔
آپ 1970ء کی دہائی کاایک واقعہ سن لیجئے،
مسلم لیگی رہنما غازی سید انعام نبی پردیسی کی رہائش گاہ پر یو ڈی ایف (یہ بھٹو حکومت کیخلاف حزب اختلاف کا اتحاد تھا جو آگے چل کر قومی اتحاد میں تبدیل ہوا) کے رہنماؤں کے اجلاس میں لیگی راہنما خواجہ ادریس نے تقریر کرتے ہوئے بیگم بھٹو کے بارے چند عامیانہ جملے استعمال کئے۔
غازی انعام نبی پردیسی اور شاہ فرید الحق کیساتھ بوستان علی ہوتی تینوں شخصیات اپنی نشستوں سے اُٹھیں اور خواجہ ادریس کو بھرے مجمع میں ٹوکتے ہوئے کہا
”خواجہ صاحب آپ کے الفاظ نامناسب ہی نہیں ہماری سماجی روایات کے بھی منافی ہیں”
تینوں رہنمائوں کے اس ردعمل پر دیگر شرکاء نے بھی خواجہ ادریس کی مذمت کی،
اگلے دن اخبارات میں خواجہ ادریس کی بدزبانی سے پیدا شدہ صورتحال کی خبریں شائع ہوئیں تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے علامہ شاہ احمد نورانی کو ٹیلیفون کرکے شاہ فرید الحق کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کی۔
علامہ شاہ احمد نورانی نے کہا بھٹو صاحب ہمارا اختلاف آپ سے سیاسی نظریات پر ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کیساتھ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے، چند ذہنی مریضوں کے علاوہ کبھی کسی نے اسے درست نہیں سمجھا۔
پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں گئے سیاسی مہاجرین کہتے ہیں دیکھو جی شریف خاندان نے بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کیخلاف کیسی کیسی بدزبانی نہیں کی لیکن وہ یہ نہیں سوچتے خود محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ ایک ہی بات کی اور کہی
”گالی کا جواب گالی نہیں ہوتا”۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ