جناب نوازشریف علاج کیلئے لندن میں ہیں ان کے برادرخورد اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی ہمراہ ہیں۔
لندن میں ہی ان کے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی کے علاوہ چند قریبی عزیز بھی موجود ہیں۔
ہم پاکستانی ہسپتالوں کے ٹھاہ پھاہ پروگرام کے عادی ہیں اس لئے سمجھ نہیں رہے کہ8ہفتے گرز جانے کے باوجود ان کا علاج کیوں نہیں شروع ہوسکا اور ابھی تک ٹیسٹ ہی کیوں جاری ہیں۔
چند دن سے یہ خبر گردش میں ہے(ڈاکٹر عدنان اور شہباز شریف اس کی تصدیق کر چکے) کہ جناب نوازشریف نے اپنے آپریشن کو پاکستان میں مقیم صاحبزادی مریم نواز کی لندن آمد سے مشروط کردیا ہے۔
یہاں حکومت کہتی ہے کہ مریم نواز کانام ای سی ایل میں ہے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
نون لیگ رشتوں کی نزاکت اور باپ بیٹی کی محبت کو بنیاد بنا کر مطالبہ کررہی ہے کہ مریم نواز کو لندن جانے کی اجازت دی جائے۔ مریم نواز کا ٹویٹر اکائونٹ بھی لمبی چپ سادھے ہوئے ہے۔
ہمارے دوست ماسٹر مشتاق احمد چند دن اپنی سول سپرمیسی قیادت سے ناراض رہنے کے بعد پچھلے کچھ دنوں سے پیپلزپارٹی کیخلاف دودھاری تلوار لئے دادِشجاعت میں جُتے ہوئے ہیں۔
وہ کبھی زرداری بارے پوچھتے ہیں، کبھی بلاول کی بھد اُڑاتے اور کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کی تخلیق کے طور پر پیش کر کے کلیجے کی آگ ٹھنڈی کرتے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے پنجاب کے شہر لاہور میں موٹر سائیکل کی ٹکر سے سڑک پر گر کر چوٹیں سہلانے والے راہ گیر کو موٹر سائیکل سوار کہہ رہا ہوتا ہے
”اُٹھو ماماں، ٹانگ تو نہیں ٹوٹ گئی موٹر سائیکل ہی لگی ہے گڈی(گاڑی) کے نیچے تو نہیں آگئے”۔
اصولی طور پر تو ہمیں ماسٹر مشتاق احمد کو کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ بہت سارے سکہ بند جیالے ان کے دوست ہیں معمول کے حالات ہوں یا عالم پرواز ہردو میں وہ ان کیساتھ ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے بھی دوست ہیں اس لئے کل ان کی حکومت میں عرض کیا
”آپ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لیجئے تاکہ زیادہ بہتر انداز میں بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی پر گرج برس سکیں”۔
انہوں نے مشورہ یکسر مسترد کردیا خیران کی مرضی ہے وہ سول سپر میسی کی محبت میں پتھراو کریں یا گردنیں ماریں۔
دو دن سے سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ
”جناب باجوہ بھائی” لندن میں نوازشریف خاندان سے مذاکرات کررہے ہیں ، ان مذاکرات میں شریف فیملی کو قومی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔
جو اباً شریف خاندان نے قبل ازوقت انتخابات کروانے اور دوتہائی اکثریت دینے کا مطالبہ کردیا۔
کہانی گھڑنے والے ”ماہر” نے یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس سے سول سپرمیسی کی عزت بڑھے گی یا سر بازاررسوا ہوگی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوازلیگ اور اپوزیشن کی دوسری جماعتیں 2018ء کے انتخابی نتائج چرائے جانے کے موقف پر سیاست کررہی ہیں۔ ایسے میں اگر نون لیگ کسی سطح پر مذاکرات کے دوران یہ شرط پیش کرتی ہے کہ قومی حکومت کی بجائے دو تہائی اکثریت کا انتظام کر کے حکومت اس کے حوالے کی جائے تو اس سے سول سپرمیسی اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دفن ہوتا ہے۔
ویسے یہ دونوں اب بھی قریب المرگ ہی ہیں۔
ذاتی طور پر میں فقیر راحموں کی اس اطلاع سے متفق نہیں کہ
”طے یہی پایا تھا کہ نواز شہباز کے لندن جانے کے پندرہ دن بعد مریم نواز کو بھی لندن بھجوادیا جائے گا”۔
کیسے اور کون بھجوائے گا، حکومت تو مان ہی نہیں رہی وہ تو شکر ہے کہ قیامت سے زیادہ خوفناک مہنگائی نے لوگوں کی توجہ دوسری طرف موڑ دی ورنہ لوگ تو لوگ خود تحریک انصاف والے میاں نواز شریف کی لندن روانگی کو اپنے احتسابی بیانئے کی شکست فاش قرار دے رہے تھے۔
ان حالات میں اگر مریم نوازشریف بھی والد کی تیمارداری کیلئے لندن چلی جاتی ہیں تو انصافیوں کا کیا ہوگا؟۔
سوال یہ ہے کہ اگر نون لیگ اور ریاست کے درمیان مذاکرات والی کہانی کو سچ مان لیا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جناب نواز شریف کی لندن روانگی بھی معاہدہ کا حصہ تھا،
اب شریف خاندان معاہدہ کرنے والوں کو یاد کروارہا ہے کہ اگلے مرحلے پر بھی عمل کیجئے ۔
ایسا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں مان لیا جاتا کہ یہ طے پایا تھا کہ شریف خاندان میں سے صرف حمزہ شہباز شریف سیاسی عمل کا حصہ رہے گا باقی کے شریف لندن میں سات سال آرام کریں گے؟۔
پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے، نظریات کو دفناچکی سیاسی جماعتیں شخصیات کے بتوں کو دیوتا بنا کر پیش کررہی ہیں۔
مہنگائی اور دوسرے بدترین مسائل پر صرف زبانی جمع خرچ ہورہا ہے۔
نون لیگ کی ساری قوت مریم نواز کو لندن بھجوانے پر صرف ہورہی ہے۔ ہمارے نون لیگی دوست چونکہ پیپلزپارٹی کو قابل ذکر سیاسی جماعت نہیں سمجھتے اسلئے ان کی خوشی کیلئے ہم بھی پیپلزپارٹی کا ذکر نہیں کرتے۔
ضرورت بھی کیا ہے، ویسے سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو نون لیگی پرسوں سے اگلے روز تک مریم نواز کو پنجاب کی بینظیر بھٹو بنا کر پیش کر رہے تھے وہ اب اپنی بینظیر مریم نواز سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ جاتی امراء سے باہر نکل کر عوام کی قیادت کریں یا پھر کم ازکم چپ کا روزہ ہی توڑ دیں۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں لیگی شیروں اور جیالوں کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے مقابلے دیکھنے والے ہیں۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن (اس میں نون لیگ، پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتیں شامل ہیں) نے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔
محض چند بیانات سے لوگوں کی تشفی ممکن نہیں موجودہ حالات میں حزب اختلاف کو پارلیمان کے اندر اور باہر مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے تھا تاکہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کیساتھ ادویات، آٹے اور چینی کے سکینڈلوں میں جیبیں بھرنے والوں کیخلاف کارروائی کرتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے مہنگائی اور دوسرے مسائل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
اپوزیشن کے پاس رائے عامہ کو ہموار کرنے کا موقع تھا جو اس نے نظرانداز کیا۔
آخری بات یہ ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ اگلے چند دنوں یا دو تین ہفتوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مریم نواز کی بیرون ملک جانے کی درخواست کی سماعت کرنے کیلئے نیا بنچ بن چکا ہے اگلی سماعت اٹھارہ فروری کو ہوگی ۔
عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے قبل ازوقت کچھ نہیں کہا
جا سکتا البتہ بعض انصافی رہنما بہت زیادہ پراُمید نہیں ، ان کا خیال ہے کہ اگر حکومت خود مریم نواز کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دیتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ