ستمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سرعام پھانسی کی قرارداد قومی اسمبلی نے منظور کرلی

پیپلزپارٹی کے رکن راجہ پرویزاشرف نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں  کیونکہ پاکستان پراقوام متحدہ کے قانون لاگو ہوتے ہیں

بچوں سے زیادتی کے مجرمان کوسرعام پھانسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔قومی اسمبلی نے قرارداد کثرت رائے سے منظورکرلی۔۔۔۔۔۔۔پیپلزپارٹی نے مخالفت کی۔۔۔۔۔۔۔۔وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم بچوں سے زیادتی کرنے والوں کےلیے سزائے موت چاہتے ہیں۔۔۔۔ وزارت داخلہ نے تحریری جواب میں بتایا کہ اسلام آباد میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں کمی ہوئی۔

بچوں سے زیادتی کے مجرمان کوسرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظورکرلی۔۔۔

وزیرمملکت پارلیمانی امورعلی محمد خان نے قرارداد پیش کی۔۔۔کہا بلاول بھٹو انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔۔۔زینب الرٹ بل میں بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سزائے موت کے مطالبے کی مخالفت کی گئی۔۔۔اپوزیشن بتائے کیا اب سزائے موت کے بل کی حمایت کےلیے تیار ہے؟؟

پیپلزپارٹی کے رکن راجہ پرویزاشرف نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں  کیونکہ پاکستان پراقوام متحدہ کے قانون لاگو ہوتے ہیں۔۔۔کوئی بھی معاشرہ سرعام پھانسی کو قبول نہیں کرے گا۔۔۔سزا سخت کر دیں۔۔۔اتنی سزا دیں کہ مجرم جیل میں مرجائے۔۔۔

وقفہ سوالات کے دوران وزارت داخلہ نے تحریری جواب میں بتایا کہ 2018 میں اسلام آباد میں بچوں سے زیادتی کے 66 اور 2019 میں 60 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔۔

2018 میں 80 ملزمان اور 2019 میں 75 ملزمان گرفتار ہوئے۔۔۔۔ایک ملزم کو سزا ہوئی باقی کا ٹرائل ہورہا ہے۔۔

قرارداد منظور ہونے کے فوراً پاکستان تحریک انصاف کے دو وزرا وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹس میں اس کی مخالفت کر دی۔

فواد چوہدری نے لکھا کہ ’یہ قرارداد شدت پسندی کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ معاشرے ہمیشہ توازن کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ جرم کا جواب بربریت سے نہیں دیا جاتا۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے رواں سال 10 جنوری کو زینب الرٹ بل پاس کیا تھا جس کے تحت ان افسران کو سزا سنائی جائے گی جو دو گھنٹے کے اندر بچے سے متعلق جرم پر ردِعمل نہیں دیں گے۔
قومی اسبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر بل منظور کیا تھا۔ بل کے متن میں یہ بھی لکھا گیا کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہو گا۔

About The Author