ایک گھر میں ایک بچی پیدا ھوتی ھے ۔قدیم زمانے سے بچیوں کو نیک شگون نہیں سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس نوزائدہ بچی کو ایک صندق میں ڈال کر دریا کی لہروں کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ صندوق تیرتا ھوا بھنبھور شھر پہنچتا ھے جہاں دریا پر ایک دھوبی کپڑے دھو رہا ھے۔ وہ اس صندوق کو پکڑ لیتا ھے اور اس میں ایک چاند سی بچی کو دیکھ کر گھر لے جاتا ھے کیونکہ دھوبی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اب اگلا مرحلہ بچی کے نام رکھنے کا آتا ھے ۔
بچی اتنی خوبصورت ھے کہ رخ مھتاب رکھتی ھے۔ چنانچہ دھوبی یہ فیصلہ کرتا ھے کہ بچی کا نام سسی ھو گا۔۔سسی اصل میں انکی زبان میں چاند کو کہتے ہیں۔
مہران کا یہ چاند جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ھے تو سسی کے حسن کی دھوم مچ جاتی ھے۔ مکران کا شھزادہ پنوں جب سسی کو دیکھتا ھے تو دیوانہ ھو جاتا ھے۔ وہ بھمبھور کی گلیوں میں مشک و عنبر بیچنے والے تاجر کے روپ میں آتا ھےاور سسی سے شادی کی فرمائش کر ڈالی۔
سسی کے والدین پنوں سے اس شرط پر شادی کرنے پر راضی ھو جاتے ہیں کہ پنوں ساری زندگی دھوبی بن کر ان کے ساتھ زندگی گزارے گا۔پنوں دھوبی بن جاتا ھے اور شادی ھو جاتی ھے۔پنوں کے خاندان کو جب پتہ چلتا ھے کہ شھزادہ دھوبی بن گیا ھے تو پورا خاندان سخت برھم ھوتا ھے۔
اس کے بھائی اس کی تلاش میں بھمبھور پہنچ جاتے ہیں۔ اور بہلا پھسلا کر سسی اور پنوں کو نشہ آور دوا پلا دیتے ہیں اور دونوں کو کیچ لے جاتے ہیں جھاں کے وہ حکمران تھے۔سسی کو راستے میں جنگل میں پھینک دیتے ہیں اور پنوں کو آگے لے جاتے ہیں۔اب سسی کو جب ھوش آیا تو اس کے دل کا بھمبھور لٹ چکا تھا اور وہ دیوانہ وار کیچ مکران کی طرف دوڑتی ھے۔ ہجر کی آگ میں جلتی سسی تپتے صحرا میں پیروں ننگی بھاگتی جاتی ھے تو اسے سخت پیاس گھیر لیتی ھے ۔
اس سنسان تپتے صحرا میں پانی کا نام و نشان نہیں آخر اسے ایک چرواہا نظر آتا ھے جو مویشی چرا رہا ھے مگر چرواھے کی بُری نیت بھانپ کر سسی حسرت سے آسمان کی طرف نگاہ کرتی ھے ۔۔۔زمین پٹھتی ھے اور وہ اس میں سما جاتی ھے۔ ادھر پنوں کو جب ھوش آیا تو وہ سسی سسی کرتا بھمبھور کی طرف بھاگا۔
اس کی ملاقات اس چرواھے سے ہوئی ۔ماجرہ معلوم ھوا تو وہ سسی سسی کرتا اس جگہ کی طرف دوڑا۔۔ سسی کی کربناک آواز آئی۔۔۔۔۔ پنوں ۔۔۔ قبر شق ھوئی اور پنوں سسی سے جا ملا۔۔۔۔ اب یہ حقیقت ھے سا فسانہ مگر سندھ کے رھگزاروں میں دیوانہ وار پنوں کو ڈھونڈتی سسی کے متحرک کردار کو شاہ عبدلطیف بھٹائی کے جمال پرور ذھن نے ایسا تراشا ھے کہ اس لوک داستان پر حقیقت کا گمان گزرتا ھے۔
یہ داستان ۔شاہ جو رسالو میں بیان ھوئی ھے۔۔۔ یہ سندھی رومانی المیہ ھے۔۔ہاشم شاہ نے نے بھمبھور پر ایک شعر لکھا ھے۔۔۔ ؎شھر بھمبھور مکان الہی باغ بھشت بنایا۔۔۔۔فرش فروش چمن گل بوٹا ہر اک ذات لگایا۔۔۔سسی کا بھمبھور بار بار کیوں لٹتا رہا؟ شھر کے آثار اور معتبر تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ بھمبھور اس وقت کے ایک تاریخی تجارتی شاھراہ پر واقع تھا۔اور کافی ترقی یافتہ شھر تھا۔ تعمیرات تراشیدہ پتھروں سے بنائی گئی تھیں بھمبھور کی گلیاں کشادہ تھیں۔گھر کمروں درآمدے اور فصیل پر مشتمل ھوتا تھا۔گھر ترتیب اور سلیقے سے بنے ہوۓ تھے۔شھر کے خوبصورت دروازوں سے جاہ و جلال کا پتہ چلتا تھا۔۔۔مجھے بھمبھور کی کہانی لکھنے پر کیوں مجبور ھونا پڑا؟
ڈیرہ اسماعیل خان کی کہانی بھمبھور سے بھت ملتی جلتی ھے۔۔جب میں تاریخ اٹھا کر دیکھتا ھوں تو پتہ چلتا ھے ڈیرہ بھی بھمبھور کی طرح ایک بڑی تجارتی شاھراہ پر واقع تھا اور اس تجارت سے شھر میں خوشحالی اور امن تھا۔ ہمارے پاکستان کے صوبوں کا مسئلہ یہ ھے کہ تمام وسائل پر پہلے کیپیٹل قبضہ کرتا ھے اور پھر اگر کچھ بچ جاۓ تو خیرات کے طور پر ضلعوں کو دان ھوتا ھے۔
اور ہماری سسیاں نارو کیڑے سے آلودہ جوھڑوں کا پانی پیتی رھتی ہیں۔۔CPEC کا بھی احسان ہم پر دھرا جا رہا ھے کیونکہ یہ شاھراہ کا قدرتی راستہ ھے ۔ انڈس ہائی وے ریل روڈ کا قدرتی روٹ ھے مگر یہان سے پرانی پٹڑیاں بھی اکھیڑ کر فاونڈری کا ایندھن بنا دی گئیں۔۔ڈیرہ شھر میں ستر سال سے نہ چلڈرن۔نہ نیورو ۔نہ کارڈیالوجی ہسپتال بن سکا۔
ڈیرہ شھر میں بجلی کے بل ٹھیک کرانے کا کمپوٹر نہیں لایا جا سکا آپ بنوں جا کر بل ٹھیک کرائیں۔ ہر ضلع کو ایڈمنسٹریٹیو اختیارات اور بجٹ علیحدہ دے دیں اور متعلقہ دفاتر منتقل کر دیں تاکہ لوگ چکر کاٹ کاٹ کر خوار نہ ہوں۔۔ ہماری سسیاں چار چار میل جوھڑوں کا پانی سر پر اٹھائیں کسی کے سر پر جوں نہ رینگی۔
ارے بھائی ڈیرہ کی آبادی لوکل اور افغان مہاجرین کی وجہ سے چار گنا بڑھ گی۔ہسپتالوں کے فرشوں اور ٹائلٹ میں مریض پڑے ہیں۔۔ہر دوسرا مریض پشاور ملتان اسلام آباد ریفر ھو رہا ھے کبھی گنتی کی؟ ہمارے لیڈروں کو جمھوریت کی فکر ھے کیونکہ وہ ان کی عیاشی کا ذریعہ ھے عوام زندہ باد مردہ باد کے لئیے پیدا ھوۓ ہیں ۔۔ ان کا مقدر سیاستدانوں کی عیاشیوں کا ایندھن بننا ھے اور یہ بھی آگ میں جلنے سے خوش ہیں۔۔۔1947ء کے غدر نے کتنی سسیوں کو کنوں میں چھلانگ لگانے پر مجبور کیا؟ کتنی سسیاں تپتے صحراوں میں زندہ درگور ھو گئیں۔ان سسیوں کا تعلق بھی بھمبھور نہیں ڈیرہ سے تھا۔۔۔۔۔
سرائیکی شعر ھے ؎
اتھے سسیاں نوں لُٹ لیندا تھل وے۔۔اس دنیا توں دور دلا چل وے۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر