روزنامہ اعتدال میں یہ خبر پڑھ کر دکھ ہوا کہ ہمارا پیارا خیبر پختونخوا صوبہ شرح خواندگی میں چاروں صوبوں سے پیچھے رہ گیا۔ اس سے پہلے ٹرانپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ نے ہماری PTI کی حکومت جو کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی کو کرپشن میں دوسری پارٹیوں سے اول قرار دے دیا ۔
گویا سب سے کرپٹ ترین حکومت PTI نکلی جو دن رات کرپشن ختم کرنے کے بیان دیتی رہتی ہے۔
شرح خواندگی میں اول صوبہ پنجاب بتایا گیا ہے جہاں یہ 64.7 % ہے جبکہ سندھ 62.2 % کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بلوچستان 55.5% کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور خیبر پختونخوا 55.3% کے ساتھ آخری نمبر پر رہا۔ ہمارے صوبے خیبر پختونخوا میں PTI حکومت کو چھ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا اور تعلیم کو عام کرنے پر بہت زور دیا.
مانٹرنگ ٹیمیں بنائی گئیں ۔عمارتوں پر کافی پیسہ خرچ ہوا۔ البتہ مردوں کی شرح خواندگی میں خیبر پختونخوا پہلے بلوچستان دوسرے سندھ تیسرے اور پنجاب چوتھے نمبر پر آیا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ بلوچستان صوبہ جو رقبے کے لحاظ بہت بڑا ہےاپنی پوزیشن مستحکم رکھے ہوے ہے جبکہ وہاں تو سرداری اور جاگیرداری سسٹم بھی مضبوط چلا آ رہا ہے۔
ہمارا پختونخوا عورتوں کی تعلیم میں مار کھا گیا۔ میں کئی سالوں سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈز کے نتائج دیکھ رہا ہوں جس میں عموما” لڑکیاں ٹاپ پوزیشن حاصل کرتی ہیں پھر تعلیم نسواں میں ہم پیچھے کیسے رہ گیے؟
مجھے نہیں پتہ کہ محکمہ تعلیم اس پر کیا رد عمل دیتا ہے لیکن دل میں ارمان بہت ہے ۔ صوبائی حکومت آج کل مکمل اکثریت کے باوجود کرائسس کا شکار ہے کیونکہ کچھ MPA فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض نظر آتے ہیں۔
حقیقت بھی کچھ اس طرح نظر آتی ہے کہ صوبائی حکومت ایک سال سوئی رہی نہ ترقیاتی کام نہ کوئی بڑا پراجیکٹ بس ایک BRT ایسا منصوبہ ہے جو حکومت کی جان نہیں چھوڑ رہا۔
دور دراز کے اضلاع جیسے ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال تو حکومت کے صرف نقشے پر موجود ہیں جیسے ٹیل پر رہنے والے کسانوں کو بچا کھچا پانی نصیب ہوتا ہے اسی طرح کبھی ہمارا ذکر بھی آ جاتا ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلی صاحب تشریف لاۓ تو انہی منصوبوں کا ذکر کرتے رہے جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔
جنوبی پنجاب کے لوگ تخت لاھور سے تنگ آ کر سرائیکی صوبے کی تحریک چلا رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں ہر ڈویژن کو انتظامی طور پر صوبے کا درجہ دینا چاھیے تاکہ ترقی اور دولت کا ارتکاز ایک جگہ نہ ہو۔
حکمرانوں نے چار شھروں کو ترقی دینے کے لیے میٹرو ٹرین۔جنگلہ ٹرین۔اورنج ٹرین۔بی آر ٹی کے غیر پیداواری منصوبوں پر ھزاروں ارب خرچ کر ڈالے جن کو چلانے کے لیے اربوں کی سبسڈی ہر سال دینی پڑتی ہے اور حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا اور یہ سب اپنے وسائل سے کیا جاتا تو کچھ بات تھی مگر مہنگے قرضے لے کر کیا گیا ۔
صاف ظاہر ہے ان منصوبوں پر اربوں کی کمیشن تھی۔اس کے مقابلے پانی کے وسائل کو ترقی نہ دی گئی جس سے ہم خوراک میں خود کفالت بھی کھو بیٹھے۔
پن بجلی ونڈ اور سولر بجلی کی بجاے ہم نے مہنگے ترین تیل سے چلنے والے جنریٹر لگوا لیے اور وہ بھی قرضے لے کر۔ اب 18گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اوپر بجلی کے بلوں پر ناروا جرمانے صرف غیر ملکیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے قوم کا مقدر بنے۔
کمیشن کھا کر جائیدادیں تو بنا لیں لیکن ملک کو بیچ ڈالا ۔ تیل سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں نے ملک کو جام کر کے رکھ دیا ہے ۔ نہ ہماری انڈسٹری یہ مہنگی بجلی استعمال کر کے بین الاقواممی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکتی ہے نہ گھروں کے بل ادا ہو سکتے ہیں۔
واپڈا کی وجہ سے ہڑتالیں ۔سڑکیں بلاک آے روز کا معمول ہیں۔ ان IPP بجلی گھروں کی وجہ سے جس تیزی سے ہم نے ترقی معکوس کا سفر کیا اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی مگر انتہا دیکھیں کہ اس معاملے کو کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا گیا۔
ہر حکومت بغیر چوں چراں کے سیکڑوں ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی شکل میں ادا کرتی رہتی ہے اور پتہ نہیں اس ایشو پر کیوں سکتہ طاری رہتا ہے ۔
اس دن بجلی کے اس گورکھ دھندے کی وجہ سے درابن کلاں کے مقام پر ڈیرہ ژوب روڈ بلاک رہی سارا دن عوام پولیس اور واپڈا آنکھ مچولی کھیلتے رہے مگر حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ بہر حال ہمارے صوبے کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہنا نہایت افسوسناک ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر