چونکہ ہمارے محبوب قائد ووزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ”میری حکومت شفاف ترین حکومت ہے اس لئے لوگ اخبارات پڑھیں نا ٹی وی ٹاک شو دیکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا”
اس لئے سیاسی کالم لکھنے کا کیا فائدہ۔
قائد مرشد کی طرح ہی ہوتا ہے’ دیوتا سا اور مرشد کے مرتبہ سے منکر لوگ قابل اصلاح ہوتے ہیں۔
اب اگر ہمارے مرشد کے مخالفوں کے مرشدین طاقت پرواز سے محروم ہیں تو اس کا دوش مرشد اور ان کی حکومت کو بالکل نہ دیں بلکہ کامل واکرم مرشد تلاش کریں۔
مرشد فرماتے ہیں ہمارے اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، ماضی میں سول فوجی حکمران میوزیکل چیئر کھیلتے رہے۔
کرپٹ مافیا نہیں چاہتا کہ ان (مرشد) کی حکومت کامیاب ہو۔ مافیا کے ایجنٹ روز نئی افواہ پھیلاتے ہیں۔ پیچھے مڑنے کا راستہ ہے نانظریہ پر سمجھوتہ کروں گا۔ اہداف کے حصول کیلئے کشتیاں جلانا پڑتی ہیں۔
قائد مرشد کی اس تقریر کے مندرجات نے مجبور کردیا ہے کہ ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ
”مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے۔
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا”۔
‘مرشد’ کے عنوان سے افکار علوی کی شاہکار نظم کے بعض اشعار کو کالم کے متن کا حصہ بنانے کی دو وجوہات ہیں، اولاً یہ کہ افکار علوی کا تعلق میرے جنم دیس سرائیکی وسیب سے ہے۔
وہ سرائیکی لہجے میں جب دردبھری آواز کیساتھ اپنی اُردو شاعری پڑھتا ہے تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ذاکر اپنے عصر (موجودہ عہد) کا نوحہ پڑھ رہا ہو۔
کیسی عجیب بات ہے کہ انسانی تاریخ اور نسل انسانی کی ہر نسل کا اپنا اپنا عہد اور اپنے اپنے نوحے ہوتے ہیں۔
وقت رُکے نہیں رُکتا مگر نوحہ خوانوں کی زبان بھی بند نہیں ہوتی، وہ اپنے عہد کے جبر وستم کیساتھ سماج میں موجود خرابیوں’ منفی رویوں’ ذات پات’ چھوت چھات اور انصاف ومساوات کے قتل پر بولنے سے باز نہیں آتے۔
افکار علوی بھی اپنی نسل (نئی نسل) کے عصر کا نوحہ خواں ہے۔
اسی لئے جب وہ یہ کہتا ہے کہ
”مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے’
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا۔
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوگیا’
تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات سننا پڑتی ہے۔
افکار علوی کی نظم کیساتھ بھی دو مسئلے ہوئے،
اولاً یہ کہ شاعری کے بے دریغ قدردان’ سرتال’ لے بھاؤ اور کافیہ ردیف کی تلواریں سونتے آن موجود ہوئے اور کہنے لگے یہ تو شاعری ہی نہیں۔ یہ بالکل ایسی صورتحال ہے جیسی ہمارے
”مرشد” وزیراعظم عمران خان نے بیان کی اور آپ بالائی سطور میں اقتباس پڑھ چکے۔
ثانیاً یہ کہ جو اس کے حق میں ہیں وہ بھی بے حساب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ زمین زادوں کے دکھ بیان کرتے ہوئے کافیہ ردیف نزاکتوں اور قواعد کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری نہیں۔
یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ کیا بیان وکلام دل ودماغ پر دستک دے کر سوچنے اور یہ اعتراف کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ میری ہی آواز ہے؟۔
معاف کیجئے گا میرا مقصد اپنے سیاسی مرشد کے ماضی وحال کو افکار علوی کی نظم مرشد میں تلاش کرنے کی کوئی کوشش ہے نا یہ کہ سیاسی مرشد کے ارشادات تازہ کو اسی طرح مسترد کردوں جیسے کچھ لوگ افکار علوی کے ”مرشد” کیخلاف لٹھ بازی کر رہے ہیں۔
البتہ یہ سچ ہے کہ
”مرشد ہماری ذات پہ بہتان چڑھ گئے’
مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی”
اچھا اس شعر کی مدد سے ہمیں سیاسی مرشد کی پچھلی تقریروں اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کا تقابل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مرشد صرف اپنا سچا ہوتا ہے۔
پیر کو مرید پرواز کرواتے ہیں جیسے 2014 میں ڈی چوک کے 126روزہ دھرنے کے دوران پروازیں ہوئیں، تب ہمارے مرشد کی تقریروں کے ایک ایک جملے اور اس میں شامل الزاموں پر ٹی وی ٹاک شو ہوا کرتے تھے
تبھی مرشد نے ہمیں بتایا تھا کہ ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک پاکستان میں 12ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہوتی ہے۔ کل فقیر راحموں حساب کتاب لگا کر بتا رہے تھے کہ
ایک سال کے دوران 4320 ارب روپے کی کرپشن کی بچت ہوئی اور یوں پچھلے سترہ ماہ کے دوران مرشد کی حکومت نے 6120 ارب روپے کی کرپشن نہیں ہونے دی۔
افکار علوی جب کہتا ہے
”مرشد میں جل رہا ہو’ ہوائیں نہ دیجئے۔
مرشد! ازالہ کیجئے دعائیں نہ دیجئے”
تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ اصل میں کہہ رہا ہے، مرشد سترہ مہینوں کے دوران بجلی گیس’ پیٹرول وغیرہ بہت مہنگے ہوئے’ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں’ دیہاڑی داروں اور کچلے ہوئے طبقات کا بہت برا حال ہے۔
مرشد اب تقریروں’ بیانات اور تسلیوں سے بہلانے کی بجائے ازالہ کیجئے کیونکہ وعدوں سے پیٹ بھرنے کا ہرگز نہیں۔
یہ دو مصرعے پچھلے سترہ مہینوں کی المیوں سے بھری داستان بیان کر رہے ہیں
چونکہ مرشد نے اخبارات پڑھنے اور ٹی وی شو دیکھنے سے منع کردیا ہے اس لئے اب کتابیں پڑھی جائیں گی اور ویڈیوز سے جی بہلایا جائے گا۔
اس وقت تک جب تک مرشد کتابوں اور ویڈیوز کو تین طلاقتیں دینے کیلئے مریدان باوفا کو کوئی نیا حکم نہیں دیتے۔
جی کرتا ہے کہ مرشد کو افکار علوی کا ایک اور شعر سناؤں۔ ”مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہوگیا۔
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں”۔
35 روپے کلو والا آٹا 60سے 75روپے اور 40روپے کلو والی چینی 80روپے مل رہی ہے۔
کسی دن بھیس بدل کر سرائیکی وسیب کی کسی غلہ منڈی میں گندم کی فی من قیمت تو پتہ کریں،
ابھی پرسوں رحیم یار خان میں 18سو 80روپے فی من گندم کا ریٹ تھا۔
یوٹیلٹی بلوں’ مکان کا کرایہ’ سادہ خوراک ان سب پر اُٹھتا خرچہ تنخواہ سے تین سو فیصد زیادہ ہے۔
مریدوں کیلئے اب مرشد کا کیا حکم ہے،
چوری ڈاکے کا کاروبار کرے یا لنگر خانوں اور داتا صاحب سے لے آیا کرے؟
لیکن مرشد سارے مرید لاہور میں ہی تو نہیں رہتے’ دوسرے شہروں اور قصبوں والے کیا کریں؟
مرشد اب آخر میں ایک شعر اور آپ کی نذر ہے۔
مرشد کسی کے ہاتھ میں سب کچھ تو ہے’ مگر
مرشد کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں ”کسی” میں مخدوم’ ترین’ ڈار’ واڈے وغیرہ نہیں صرف عوام شامل سمجھے جائیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر