دھمال چوک سے سیہون ریستوران تک پہنچنے میں مجھے گیارہ منٹ لگے۔میرے شعور کے تہ خانے میں نگہ اور سپہ کی تیغ بازی جاری تھی۔ گاڑی سیہون کی گرد آلود سڑک پر آہستہ اور مسافر کا اسرارِازل میں لپٹا وجود، تیزی سے دوڑتے تھے۔ بھوک ، پیاس اور چائے کی طلب ، رمضان کے خوف سے حزن میں بدلنے لگی تھی ۔
میرے ساتھ بیٹھے خادم حسین سومرو کے سفید بالوں اور شانت چہرے پر سومرا خاندان کی 350 سال پر محیط (کم و بیش) خود مختار سندھی سلطنت اور شہباز قلندر کی بادشاہی، دوئی کی صورت نمایاں تھے۔سوچ کے کئی دھارے میرے وجود کے تھل میں سرسوتی اور سندھ کی صورت بہتے تھے۔
لا شعور میں سپت سندھو کے سات دریا رواں تھے اور میں پیاسا تھا۔ علم و دانش کا سرسوتی سوکھ گیا تھا اور دریا پنتھیوں کے اوتار، سندھو کی پن طاقت کم پڑ گئی تھی۔دانش و دانائی ہار گئے تھے۔
چینگزیت کے ننگے سچ کے سامنے صوفی کا سچ چراغوں کی صورت ٹمتماتا تھا۔مزار پہ رکھے سرسوں کے تیل اور کپاس کے فلیتوں والے مٹی کے روشن دئیے میرے ساتھ چلتے تھے۔ بائبل کی حکایت ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا کہ خدا کی سلطنت کو کس مثال سے واضح کروں؟ ” It is like a grain of a mustard seed” اور جب اسے تم زمین میں ڈالتے ہو تو یہ ایک باغ بنتا ہے اور پھیل جاتا ہے۔ مٹی کے دئیے زمیں زاد کی صورت چارسو روشن تھے۔ سرسوں کے تیل کے دیوں سے میرا دھیان سرسوں کے ساگ، چاول کے چلڑوں، مکئی کی روٹی کی طرف گیا یہ سب سندھ وادی میں فراواں تھا اور فراواں مخلوق بھوکی تھی۔ خدا کی سلطنت میں اگتی بھوک خدا کی منشا کے خلاف تھی !!
سیہون ریستوران پہنچا تو لہو لہان تیرھویں صدی نے ریستوران کی سیڑھیوں میں میرا بازو زور سے پکڑ لیا۔ جیسے کالرج کی نظم "Ancient Mariner” میں بوڑھے ملاح نے شادی کے مہمان کو اپنی کہانی سننے کو روک لیا تھا۔میں دو اطراف سے نرغے میں تھا ایک طرف تاتاری تو دوسری طرف صوفی تھے۔
تاتاری وجود کو کاٹتے تھے اور صوفی روح کی شکستہ فصیل پر آگہی کے دئیے جلاتے تھے۔ اور میں تاتاریوں کے ظلم سے خوار و زبوں اور صوفیوں کی کرامات سے مست ، دما دم مست قلندر کرتا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ موالی، ملنگ اور غلام کا وجود اور روح اس کے اپنے نہیں ہوتے۔دشت ِوجود میںرقصِ بسمل جاری تھا۔ یادداشت کے مطلع پر ایک شعر طلوع ہوا، بختیار کاکی جسے پڑھتے حال کی حالت میں شہید ہوئے:
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
ہر زمانے میں مجھے نئی زندگی ملتی ہے۔جس کاتمہیں شعور نہیں۔ میری وفات کے دن میلہ اس لئے تو لگتا ہے جسے صوفی عرس کہتے ہیں۔ سندھ میں اسے میلہ کہتے ہیں۔ لال قلندر کا میلہ ‘ جسے میرا ایمان عرس کہتا ہے!
تیرھویں صدی کو کئی پہلووں سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہ وہ ماضی ہے جس کو جانے بغیر مستقبل کی تفہیم مشکل ہے۔ تاتاریوں کی یلغار سے مسلمانوں کی تباہی ، خراسان کا زوال ، سندھ میں330سال پر محیط سومرا سلطنت ، دہلی میں غوریوں اور خاندانِ غلامہ کا عروج ، مصر ، سندھ اور ملتان میں منگولوں کی ہزیمت، صوفیوں کی آمد، تعلیمات ،ملتان اور سندھ میں بہاء الدین ذکریا ملتانی اور شہباز قلندر کی اہمیت ، ملتان کے مدرسہ بہائیہ اور اچ کے مدرسہ فیروزیہ کا کردار ،اور ان سب کے آپس میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور روحانی رشتوں کو سمجھے بغیر اس عہد کا ادراک مشکل ہے!
یہ ایسی صدی ہے کہ اس میں مقتول زمیں زادوں کی زندگی تاتاریوں اور صوفیوں کی دوئی سے دو نیم تھی؟تاتاری غرور اور نخوت سے خدا کی زمین کو تاراج اور اس کے بندوں کو قتل کرتے تھے اور صوفیاء زبورِ محبت لکھتے تھے ۔ اور وحدت الوجود سے ایک طرح سیکولرازم اور مذہبی رواداری اور برداشت کا درس دیتے تھے۔ یہ قابل اور عالم لوگ تھے اور روحِ عصر کا پورا ادراک رکھتے تھے۔ کچھ جوابات مگر تشنہ ہیں!!! بہاء الدین ذکریا اور چنگیزخان، امام حسین علیہ السلام اور یزید ، موسی علیہ السلام اور فرعون، ابراہیم علیہ السلام اور نمرود اور ہمارے عہد کے فرعون اور افتادگانِ خاک سب ایک ہیں تو سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟
اگر سچ حُسن اور نیکی ہے تو چنگیز کی بد صورتی کیسے زیبائی ہے ؟ سچ اور جھوٹ ، ظالم اور مظلوم، قاتل اور مقتول صوفی کے دُروں خانوں اور تکیّوں میں ایک ہوں تو ہوں ، زمیں زاد کی دنیا میں دو تھے!! تیرھویں صدی میں چنگیز اور اس کے جانشینوں نے مسلم عرب و عجم کی سلطنتوں کے وجود کوتارراج کیا اور مشرقی ایشیاء سے مشرقی یورپ تک دس کروڑ نفوس اور تینتیس لاکھ مربع کلومیٹر پر ایک بڑی سلطنت قائم کر دی۔
منگول سلطنت 1206ء سے 1368ء تک کوئی 162 سال قائم رہی۔تموجن یعنی لوہے کا کام کرنے والا، 1162 میں پیدا ہوا اور 1227 میں فوت ہوا۔نو سال کی عمر میں اُس کا باپ مرا تو قبیلے نے اُس کی ماں کو سات بچوں سمیت نکال دیا۔پھر وہی یتیم اور نادار بچہ چنگیز بن کر خدا کا قہر بن گیا۔ چنگیز نے ایک حد تک قانون اور میرٹ کی حکمرانی کو فروغ دیا اور oral یاسا( Yassa) کوڈ نافذ کیا جس کا اعلان چنگیز خاں نے بخارا میں خود کیا
۔یاسا کے نفاذ سے چنگیز نے وحشی قبائل میں امن قائم کیا۔ امن سے تجارت کو فروغ ملا اور شاہراہِ ریشم دنیا کی محفوظ ترین شاہراہ بن گئی۔لوٹ مار کا کلچر ختم ہو گیا اور مذہبی رواداری کے نتیجے میں مسلمان، بدھ اور عیسائی سیکولر چنگیز کی سلطنت میں امن سے رہنے لگے۔یاسا کی کچھ شقیں سفاکانہ تھیں جیسے سال کے شروع میں تمام لوگ اپنی بیٹیاں خان کو پیش کرتے اور جو لڑکیاں اسے پسند آتیں انھیں وہ اپنے پاس رکھ لیتا تھا ۔
چنگیز، ٹینگرست تھا۔ مگر وہ مذہبی رواداری پر یقین رکھتا تھا۔ یہ سبق شاید اس نے برباد مسلم تہذیب سے سیکھا تھا کہ مذہبی رواداری اور سیکولرازم کے بغیر کوئی سلطنت اور حکومت نہیں پنپ سکتی۔مسلمانوں میں سیاسی مخالف کو مذہب کی آڑ میں قتل کرنا عام رہا ہے۔چنگیز اور ہلاکو نے مسلم تہذیب کو تب برباد کیا تھا جب وہ فقہی، قبائلی اور سیاسی تعصبات اور حماقتوں سے گھائل تھی۔ پھر1295 میں غازان خان نے ساٹھ ہزار ساتھیوں سمیت اسلام قبول کر لیا اور کعبے والوں کے قتل ِعام کے بعد وہ کعبے کے پاسبان بن گئے ، فتنہء تاتار کا یہ کچھ ایسا اچھا انجام نہ تھا۔ مگر تب بہت تباہی ہو چکی تھی ۔
منگول جس شہر کو فتح کرتے، اسے جلاتے اور تمام لوگوں کو قتل کر دیتے۔ چار کروڑ لوگ مارے گئے اور ایران کی آبادی پچیس لاکھ سے صرف ڈھائی لاکھ رہ گئی ۔ہزاروں شہر زمین بوس ہوئے۔ لائبریریاں جل گئیں۔ تاریخ کے اس خونچکاں موڑ پر مسلم عوام کے دردِعام کو فریاد کا آہنگ درکار تھا۔وجود کی وحدت کا تصور، پارہ پارہ وجود کو جمع کرنے کا آہنگ تھا!! جب موت خالق کا وصل بن فانی وجود کو وجودِمطلق سے ملانے کا ذریعہ بن گئی! مسافر ایسی احمقانہ تشکیک میں گھرا سیہون ریستوران میں داخل ہوا۔اندر ایک ہال تھا جہاں چند لوگ کھانا کھا رہے تھے اور وہ ہر اندر آنے والے کو خوف سے دیکھتے تھے!!
خوارزم شاہ، فارس کی ایرانی سلطنت، خراسان کا علم، ثقافت و تہذیب اور بغداد کی خلافت کو فتنہء تاتار کھا گیا تھا۔ اس عہد کی المیاتی کیفیت کی تفہیم صوفی ازم کو سمجھے بغیرممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے پہلے خراسان چلتے ہیں ۔
خراسان ہمارے ہمسائے میں ہے اس کا پرانا نام پارتھیا تھا جسے ساسانیوں نے خراسان یا سورج طلوع ہونے کی سرزمین کہا جیسے جاپان کو جاپانی Nippon یا سورج نکلنے کی سرزمین کہتے تھے۔خراسان، ایران کا شمال مشرقی صوبہ تھا جس میں وسطی ایشیاء کا بڑا حصہ، افغانستان کے بلخ اور ہرات،ازبکستان کے سمرقندو بخارا، موجودہ ایران کے نیشاپور، اور ترکمانستان کا مرو شامل تھا۔ ایک زمانے میں ایرانی بغداد اور وادء سندھ بھی ایک وسیع کلچر میں شامل رہے ہیں۔رادھا کمار مکر جی خراسان کو انڈیا کی شمال مغربی سرحد کہتے ہیں!
جدید فارسی نے خراسان میں عروج پایا۔رودکی، فردوسی اور رومی جیسے شاعر وہاں کے تھے اور بو علی سینا، عمر خیام اور فارابی جیسے نابغے اسی خطے کے سپوت ہیں۔امام بخاری، امام مسلم، امام غزالی اور فخرالدین رازی بھی اسی مٹی کا کرشمہ تھے۔ singing bowl یا جام_ غنائی، کی ایجاد بھی یہیں کہیں کی ہے۔
بہت سے اجبنی نام ہمارے ہمسایہ علاقوں کے نام رہے ہیں۔جیسے باکتریا افغانستان تو باختر بلخ ہے۔گیڈروشیہ مکران اور میڈیا مغربی ایران ہے اور لیڈیا مغربی ترکی ہے۔651 میں ساسانی سلطنت عرب مسلمانوں کے ہاتھوں انجام کو پہنچی تو یہ مردم خیز خطہ مسلمانوں کا تہذیبی مرکز بن گیا۔ لیکن تاتاریوں نے اُسے برباد کر دیا تھا۔وادء سندھ میں جو کام غزنوی اور غوری کے کرائے کے قاتلوں نے کیا۔ وسط ایشیاء ، بغداد اور روم تک اس سے کئی گنا بڑا قتل ِعام چنگیز خان اور ہلاکو خان نے کیا۔
ایک شاندار مسلم تہذیب منگولوں نے غارت کر دی۔اس پر آشوب صدی میں مولانا جلال الدین رومی قونیہ اور سید عثمان مروندی لال شہباز قلندر سیہون میں آباد ہوئے۔ سندھ میں تب مقامی سندھیوں کے سومرا خاندان کی حکومت تھی اور سیہون ریستوران میں سومرو خاندان کا مہذب آدمی میز کے دوسری طرف میرے سامنے بیٹھا تھا۔اور میرے پاس سومرا سلطنت اور قلندر کے بارے میں کئی سوال تھے۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے علامہ اقبال رح کی ایک نظم کا شعر یاد آیا:
اگر جہاں میں مِرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر