ہم ہر روز ریڈیو پاکستان سے متعلق نئی نئی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ یہ ادارہ مالی طور پر زوال کا شکار ہے حالانکہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان نے جنم لیا ۔
یہ تیرہ اور چودہ اگست 1947ء کی درمیانی شب تھی جب مصطفی علی ہمدانی کی آواز میں یہ اعلان نشر ہوا۔۔السلام علیکم۔پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ۔ہم لاہور سے بول رہے ہیں ۔طلوع صبح آذادی ۔۔۔
اس وقت ریڈیو کے پاس صرف تین میڈیم ویوز ٹرانسمیٹرز لاھور۔پشاور اور ڈھاکہ میں تھے ۔بعد کی حکومتوں نے اس کی نشریات کا دائرہ پورے ملک اور غیر ممالک تک پھیلا دیا کیونکہ یہ قوم و ملک کی آواز ہے۔
ہماری موجودہ حکومت نے ابتداء سے PBC ہیڈکوارٹرز کی ثقافت کی علامتی عمارت کو بیچنے یا کراے پر دینے کا پروگرام بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔ مگر پھر کچھ ملازمین اور کچھ عوام کے احتجاج کی وجہ سے یہ پروگرام ملتوی کر دیا گیا۔
ریڈیو پاکستان دنیا میں اکیلا ادارہ نہیں جس کو حکومت چلا رہی ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک میں سرکاری ریڈیو قومی پرائیڈ کی حیثیت سے چل رہے ہیں۔ریڈیو پاکستان نے طویل عرصے تک پاکستانی عوام کی ذھنی نشونما اور اخلاقی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ریڈیو ایک استاد اور رہنما کی حیثیت سے لوگوں کی تربیت کیا کرتا اور سامعین ریڈیو کی طرف سے دی جانے والی تربیت پر ایک طالب علم کی طرح عمل کیا کرتے تھے۔
ریڈیو پاکستان حقیقی معنوں میں تقریبا” ہر خاندان کا فرد ہوا کرتا تھا کیونکہ یہ پاکستان کی سو فیصد آبادی میں سنا جاتا ۔بیرون ملک کے پاکستانیوں کے لیے علیحدہ نشریات ہیں۔ یہ اعزاز صرف ریڈیو کو حاصل ہے کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام نمایاں زبانوں میں اس کے پروگرام اور خبریں نشر کی جاتی ہیں ۔
ریڈیو پاکستان کا اپنا ایک کوڈ آف ایتھکس ہے۔ ریڈیو پاکستان سے فحاشی۔جرایم ۔افواہیں۔کسی کی توہین۔سنسنی خیزی۔خوف وہراس کی خبریں یا جملے نشر کرنا سخت منع ہے۔ جنگ کے زمانے میں یہ ملک کے سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے اور امن میں ملک کی یکجہتی۔ترقی اور محبت کے بیج بوتا ہے۔
سیلابوں۔زلزلوں اور کئی مصائیب میں یہ قوم کی خدمت میں پیش پیش رہتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ یہ ایک قومی اور ملی ادارہ ہے ریڈیو پاکستان کا کام پیسے کمانا کبھی بھی نہیں رہا یہ تو ایک قوم و ملک کی آواز ہے۔
ماضی میں ریڈیو رکھنے والے باقاعدہ لایسنس بنواتے تھے جس سے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ یہ آڈیا بھی حکومت کو ریڈیو نے دیا تھا کہ بجلی کے بل میں چند روپے ریڈیو لائسنس فیس شامل کر دیں تاکہ یہ جھنجھٹ ختم ہو جس کو پھر ٹی وی لائسنس کا نام دے کر بجلی کے بلوں میں شامل کیا گیا ۔
کبھی حساب کر کے پتہ کریں بجلی کے بلوں سے کتنی فیس ماہانہ وصول ہوتی ہے اور ریڈیو کو کتنا حصہ ملتا ہے؟ اشتہار بھی صرف وہ لگاے جاتے ہیں جن میں کوئی اخلاقی خرابی نہ ہو اور تعلیم کا فروغ ہو۔ ریڈیو پاکستان نے زراعت کو جدید بنانے میں ٹھوس کردار ادا کیا اور کسان بیلوں کی جگہ ٹریکٹر اور تھریشر اور کنووں کہ جگہ ٹیوب ویل استعمال کرنے لگے۔
دشمن ممالک کے پراپاگنڈہ کا منہ توڑ جواب ریڈیو سے ہی دیا جاتا ہے۔اب جب سے نجی میڈیا کو پچھلے بیس سالوں سے آذاد کیا گیا اور اس نے تجارتی بنیادوں پر کام شروع کیا تو ہماری تہزیب و ثقافت اخلاقی قدروں اور اردو زبان کا جنازہ نکل گیا۔
اگر مقصد پیسہ کمانا ہو تو پھر ملک و قوم ۔تہزیب و ثقافت اور اخلاقی قدروں کی پرواہ کون کرتا ہے؟ پیسہ دینے والا سپانسر جو چاہتا ہے آپ سے کروا لیتا ہے۔نجی میڈیا کھولنے کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ کام کرنے والوں کی تعلیمی اہلیت کی کوئی ضرورت نہ رہی اس طرح نجی ریڈیو/ ٹی وی والوں نے اپنے کم پڑھے لکھے رشتہ دار اہم عہدوں پر بٹھا دیے اور پیشہ ورانہ اہلیت اور تربیت کی بھی ضرورت نہ رہی یا پھر مارکیٹ سےجو سستا مال ملا ہائیر کر لیا۔
اس طرح پروفیشنلزم کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ نجی میڈیا کا جِن اب بوتل سے باہر آ چکا اور حکومت ہاتھ ملتی رہتی ہے اور طرح طرح کے قوانین بنا کر ان کو راہ راست پر لانے کا جتن کرتی ہے۔ اب ریڈیو پاکستان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ملک کی قومی اخلاقی اور تہزیبی قدروں کو فروغ بھی دے حکومت وقت کا ایجنڈہ بھی آگے بڑھاۓ اور کمرشل بن کر نجی میڈیا کی طرح کما کر خزانہ بھی بھرے تو ایسا بالکل ناممکن ہے۔
ریڈیو پاکستان کے پنشنرز کے بقایا جات ۔کبھی پنشن روک لی کبھی ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ اور ایک سال سے میڈیکل بلز ادا نہیں ہوے۔ کبھی ہماری حکومت نے غور کیا کہ جب ڈالر کی قیمت ایک روپیہ گرتی ہے کتنے ارب قرضہ بڑھ جاتا ہے اور موجودہ دور میں تو 120 سے 155 روپے ڈالر ایک سال میں ہوا۔
سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ سارے ریڈیو پاکستان کے اخراجات آٹھ دس ارب روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اگر حکومت ملی تقاضوں کو سامنے رکھنا ضروری سمجھتی ہے تو ریڈیو پاکستان کو قومی ادارہ سمجھ کر سھارا دے اور جدید بنیادوں پر digitalize کر کے اس سے قومی تہذیب و ثقافت کے تشخص کی حفاظت کا بندوبست کرے یا پھر ریڈیو کو آوارہ چھوڑ دے جہاں سے جیسے کماۓ کچھ نہ پوچھے۔
اے وی پڑھو
سلطان ناصر اور ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔||گلزار احمد
گاٶں کے رومینٹک قصے۔۔۔||گلزار احمد
پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی اور ڈیرہ ۔۔۔||گلزار احمد