نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبوضہ کشمیر: فاروق عبد اللہ اور عمر عبد اللہ کی رہائی کا امکان

پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 26 نظربند کارکنان کے حراستی وارنٹ منسوخ

پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 26 نظربند کارکنان کے حراستی وارنٹ منسوخ

سرینگر،

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے رکن پارلیمنٹ اور نیشنل کانفرنس کے چیئرمین فاروق عبد اللہ اور ان کے بیٹے و جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی عمر عبد اللہ کو رہا کیا جائے گا لیکن یہ رہائی مشروط ہوگی۔ ذرائع  کے مطابق وہ کچھ دنوں کے لیے سرگرم سیاست سے دور رہیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ ان رہنماوں کو رہا کیے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور عبداللہ اور ان کے بیٹے کو جلد ہی رہا کیا جائے گا۔ شرائط کے متعلق ابھی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 26 نظربند افراد کے خلاف حراستی وارنٹ کو منسوخ کر دیا ہے۔

القمرآن لائن کے مطابق26 افراد کے خلاف حراستی وارنٹ کو منسوخ کر دیا گیا اور یہ افراد مین سٹریم سیاسی کارکنان ہیں، جن میں ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے روف احمد ڈار، بارہمولہ کے عبدالسلام راتھر، پہلگام کے محمد عارف لون اور ضلع شوپیاں کے جاوید کالس شامل ہیں۔

بھارتی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے قبل سینکڑوں بھارت نواز سیاسی رہنماں کو حراست میں لیا گیا، گرچہ ان رہنماوں کو رہا کردیا گیا، تاہم تین سابق وزرائے اعلی فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے کئی رہنما ابھی بھی نظر بند ہیں۔

فاروق عبداللہ تین بار سابق ریاست کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور سرینگر پارلیمانی نشست سے رکن بھی ہیں ، پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔

ذرائع  کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ آج سے 40 برس قبل 1978 میں اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب فاروق عبداللہ کے والد شیخ محمد عبداللہ سابقہ ریاست کے وزیر اعلی تھے۔

اس وقت کہا گیا تھا کہ سابقہ ریاست کے جنگلات سے لکڑی کی غیر قانونی کٹائی اور اسمگلنگ کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کے سخت گیر قانون کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک زیرِ حراست رکھا جا سکتا ہے۔

5 اگست کے بعد جموں و کشمیر کے سرگرم سیاستدانوں کو مختلف جیلوں میں نظر بند کیا گیا تھا جن میں سے کئی رہنماں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا۔کچھ روز قبل متعدد نظر بند رہنماوں کو رہا گیا تھا تاہم ابھی بھی کئی رہنما نظر بند ہیں۔

About The Author