نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وژن کی سلیمانی ٹوپی۔۔۔ محمود جان بابر

کہتے ہیں صوبے میں ایک خاص وژن کے تحت معاملات چلائے جارہے ہیں ، پتہ نہیں کس کا وژن ہے اوریہ وژن سلمانی ٹوپی پہن کر کیوں پھر رہا ہے؟
اکتوبر2014 میں جب ابھی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ایک سال سے کچھ ہی زیادہ وقت گذرا تھا جب تحریک انصاف کی جانب سے بری کارکردگی پرایم پی ایز سے وزارتیں لینے یا بدلنے پرراقم نے ایک قومی روزنامے میں اپنے کالم میں ایک ایسے فوجی یونٹ کی آپ بیتی لکھی تھی جوکئی کتابوں کے مصنف اورآئی ایس پی آر میں کرنل کے طورپرخدمات دینے والے اشفاق حسین کی کتاب سے نقل کی گئی تھی ۔ مذکورہ یونٹ پر کچھ ایسی حالت میں استورکی برف پوش اونچی پہاڑیوں میں رمضان آیا تھا کہ پیچھے سے راشن پہنچنے کے راستے بندہوچکے تھے ۔
یونٹ انچارج نے میس منیجر کو بلاکرپوچھا کہ راستے تو بند ہیں اورسامان تو پہنچ نہیں پائے گا یہ بتائیں سٹور میں کیا کیا پڑا ہے تاکہ رمضان کے مہینے کا مینو سیٹ کیا جاسکے توانہیں بتایا گیا کہ میس سٹور میں صرف آلو، پیاز اوربیسن ہے ۔
یونٹ انچارج صاحب نے پہلے دن کے مینو پرکام شروع کیا اورانہیں معلوم ہوا کہ پہلی سحری کے لئے اس سامان سے کچھ سالن قسم کی چیز بنائی جاسکتی ہے جبکہ افطاری کی باری آنے پرانہیں بتایا گیا کہ آلو، پیاز اوربیسن سے پکوڑے بن سکتے ہیں ، دوسرے دن کی سحری کے لئے بھی اسی سالن قسم کی چیز پراکتفا ہوا اورافطاری کے لئے پکوڑوں کا انتخاب ہوا ، ہوتے ہوتے کئی دنوں کا مینو سیٹ کرلیا گیا لیکن بات پکوڑوں سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی جس پریونٹ انچارج نے زچ ہوکر کہا کہ پکوڑے کھا کھا کر تو جوان بورہوجائیں گے اس لئے پکوڑوں کے علاوہ بھی کچھ بننا چاہیئے
جس پرمعصوم سی صورت والے میس منیجر نے سلیوٹ مار کر کہا کہ سرآپ کی بات بجاہے لیکن جب آپ کے پاس آلو، پیاز اوربیسن ہوگا تو اس سے پکوڑوں کے علاوہ کچھ نہیں بن سکتا اوریہی وہ لمحہ تھا جب یونٹ انچارج صاحب کو احساس ہوا کہ میس منیجر ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔
جب یہ کہانی لکھی تھی تو اس وقت سچ مچ تحریک انصاف ایسی ہی کیفیت سے دوچارتھی کہ اس کے زیادہ تر لوگ اپنے ہی تھے اوراپنی ہی پارٹی کے ٹکٹ پرمنتخب ہوکر آئے تھے،ان کے پاس تجربے نام کی کوئی چیز نہ تھی لیکن اخلاقی لحاظ سے وہ پھر بھی قابل قبو ل تھے اورجب بری کارکردگی پرعمران خان صوبائی وزرا سے وزارتیں واپس لے رہے تھے تو یہ کہانی فٹ آرہی تھی کہ جب آپ کے پاس لوگ ہی سارے کے سارے ناتجربہ کارہیں توآپ کس وزیر کو کس کے ساتھ بدلیں گے یا کس کی جگہ کسے لے کر آئیں گے اوریہی وجہ تھی کہ احساس ہونے پرپارٹی نے اس پانچ سالہ دور میں صرف ایک آدھ بار ہی بری کارکردگی پروزرا کو بدلا اورپھراس کے بعد ایسی کسی کوشش سے توبہ کرلی ۔
اب جب خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو دوسری باری دی گئی ہے تو نہ صرف اس کے اپنے منتخب نمائندے پہلے کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار ہیں بلکہ انتخابات سے قبل پارٹی میں شامل ہونے والے تمام کے تمام سمجھدار;بھی تجربے کے حامل ہیں اوراب یہ جماعت اپنے پیاز،آلو اوربیسن کے ساتھ پکوڑے پکانے پر مجبور نہیں تھی ۔ بلکہ اب تو برف پڑھنے سے پہلے ہی بہت سابیف، چکن، مٹھن، سبزیاں اوردالیں خود ہی اس کے سٹور میں سما چکی تھیں جن سے ایک مہینہ تو کیا پورا سال بھی قسم قسم کی ڈشیں پکائی جاسکتی تھیں ۔

اس وقت جب تحریک انصاف کا سٹورخالی تھا کے بعد بھی پورے پانچ سال اچھی طرزحکمرانی، لوگوں کے مسائل حل ہونے،وزارتیں تقسیم کرتے ہوئے میرٹ اوروزرا کے طرز انتخاب کے بارے میں سوالوں کا سامنا تھا اوراب جب اس صوبے میں ان کی حکومت کو باضابطہ شروع ہوئے قریبا ساڑھے چھ سال ہونے کو ہیں اب بھی ان کے کام سے کوئی مطمئن نہیں ۔ پہلی حکومت کے دوران ان کو ان کے کہنے کے مطابق اچھے لوگ نہیں مل پارہے تھے اوراب حالت یہ ہے کہ لوگ توہیں لیکن پارٹی پردباو، جماعت کے اندر پارٹی کی بجائے گروہوں کی حکمرانی، بلیک میلنگ اور میں ناں مانوں کے راج نے پارٹی کوپہلے سے زیادہ مشکل میں رکھاہے ۔

رہی سہی کسراعلی تعلیمیافتہ لوگوں کو چھوڑکرصرف میٹرک کی سند کے حامل لوگوں کو وزارتیں دینے کے عمل نے نکال دی ہے وہ سارے جو اپنے لیڈر عمران خان کی جانب سے پارٹی اورحکومتی معاملات کو میرٹ پرچلانے کے نعرے سن سن کر پلے بڑھے تھے یہ سب کچھ دیکھ کر بغلیں جھانک رہے ہیں کہ اب اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے کہ پارٹی کی اکیس اچھی شہرت کی حامل اعلی تعلیمیافتہ خواتین میں سے کسی کو کسی قابل نہیں سمجھا گیا اورساری کی ساری وزارتیں مردوں میں تقسیم کردی گئیں ، مرکز میں نوجوان مراد سعید کو وزارت دینے کے لئے کم عمری کا جواز دینے والے صوبے میں کم تعلیمیافتہ لیکن تجربہ کاروں کوکابینہ میں شامل کرنے کی دلیلیں دے رہے ہیں ۔

میٹرک پاس وزیرکو اچھی انگریزی آتی ہے کو وزارت دینے کا جواز بناکرپیش کیا جارہا ہے اورکوئی یہ کہہ ہی نہیں رہا کہ اس ذہنی غلامی سے بچنے کا نعرہ تو کئی بار آپ کے اپنے وزیراعظم دے چکے تھے کہ بہت سی اقوام نے اپنی ہی زبانوں میں ترقیاں کی ہیں ۔

پارٹی میں شامل ہونے والے بڑے خاندانوں اورگروہوں کے لوگوں کی اجارہ داری سے کیسے نکلا جائے آج کا سب سے اہم سوال ہے، ہرزبان پریہی ایک سوال ہے کہ جن وزرا کی کارکردگی ایک وزارت میں ٹھیک نہیں تھی انہیں دوسری وزارت کیوں دی گئی وہ جب پہلے ناکام ہوچکے تو نئی وزارت ان کو دینے کا کیا جواز بنتا ہے ۔ مفادات کے ٹکراو کے قانون کے تحت کسی اورکا راستہ تو کیا روکتے وہ تو اپنے ہی لوگوں کو اسی طرز پرخوش کرنے کے لئے کارفرما ہیں ۔

کہتے ہیں صوبے میں ایک خاص وژن کے تحت معاملات چلائے جارہے ہیں ، پتہ نہیں کس کا وژن ہے اوریہ وژن سلمانی ٹوپی پہن کر کیوں پھر رہا ہے؟

About The Author