نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

5، جنوری سالگرہ ! شہید ذوالفقار علی بھٹو ۔۔۔ رؤف لُنڈ

" میں اس بات کو پسند کرونگا کہ تاریخ کے ہاتھوں کچلا جانے کی بجائے فوج کے ہاتھوں مارا جاؤں"۔

بھٹو جس کی ذات پاکستان کی سیاست کا اب تک ایک ہالہ (دائرہ ) بھی بنی ہوئی ہے اور ایک حوالہ بھی۔۔۔۔۔۔ بھٹو کی ذات اور شخصیت سے جس کسی کو بھی کوئی لگاؤ ہے یا دشمنی ہے وہ اپنی آخری حدوں تک ہے۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو اب تک پاکستان کے عام لوگوں کیلئے آس اور امید کا ایک استعارہ بھی ہے اور عام لوگوں کے مفادات کے خلاف قوتوں اور ان قوتوں کے پیروکاروں کی نیندیں اچاٹ اور ہاضمے خراب کر دینے والا ایک نام بھی۔۔۔۔

بھٹو سے چاہت اور بیگانگی کی جب بات ہوتی ہے تو دونوں طرف سے وقت اور عہد کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر ان لوگوں میں وقت اور عہد کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بھٹو سے بیگانے اسے سندھ کا ایک بہت بڑا روائتی جاگیردار، رئیس ابن رئیس اور ایوب آمریت کی کابینہ کا حصہ ہوتے ہوئے کئی وزارتوں پر متمکن ہو کر صدر ایوب کو ڈیڈی کہنے والا بھٹو ہی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی اندر کی جرنیل پسندی مگر ظاہری جمہوری پردھانیت کے اظہار میں ہر سیاسی تجزئیے کے وقت یہ جملہ طوطے کی طرح دہراتے ہوئے ملینگے کہ پاکستان کا ہر لیڈر فوج کی نرسری سے تیار ہو کے آیا ہے۔۔۔۔۔

اور جو بھٹو سے عقیدت رکھنے والے ہیں ان کے نزدیک بس بھٹو آگیا اور بھٹو چھا گیا۔ بھٹو غلط نہیں ہو سکتا، بھٹو غلطی نہیں کر سکتا۔۔۔ سو دونوں کیفیتوں میں رہنے والے اپنی اپنی جگہ کسی حد تک درست ہونے کے باوجود یہ نہیں دیکھتے کہ آ جانے اور چھا جانے والا ذوالفقارعلی بھٹو اور ایوب کو ڈیڈی کہنے والا ذوالفقارعلی کے درمیان ایک وقت اور ایک عہد کا کردار بھی ہے۔
اور اس وقت اور عہد کے کردار کا نام ہے 1967-68 ء کی انقلابی تحریک اور عوامی سرکشی۔۔۔۔۔

اس عوامی اور انقلابی سرکشی سے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو سندھ خطہ کے شہر لاڑکانہ اور گرد و نواح میں بسنے والے بھٹو قبیلے کے سر شاہنواز بھٹو کا بیٹا، ایوب کابینہ میں وزراتِ صنعت و تجارت سے ہوتے ہوئے وزراتِ خارجہ تک پنچنے ، اس دوران اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور قومی سلامتی کونسل میں گرجنے برسنے ، پھر ایوب کو 1965ء کی جنگ میز پر ہار دینے کا ملزم قرار دے کر اس سے علیحدہ ہو جانے، ایوب کے خلاف تقریریں کرنے، صدر ایوب کے جوابی حملوں کا شکار ہونے، ان حملوں سے چھپنے اور بچنے کیلئے ملک میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والی نمائندہ پارٹی نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) میں شمولیت کیلئے کوشاں اور وہاں سے دھتکار دئیے جانے والا بس ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھا۔۔۔۔۔۔

پھر اچانک ایک واقعہ ہوتا ہے (اگرچہ کوئی اچانک کبھی اچانک نہیں ہوتا )۔ واقعہ یہ کہ پنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کے طلباء کا ایک وفد جب صوبہ سرحد(کے پی کے) کی سیاحت سے واپس آتا ہے۔ ان کی تلاشی ہوتی ہے۔ وہ اسے ناگوار سمجھتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں وہ ذلیل ہوتے ہیں۔ طلباء اپنی ذلت کی داستان اپنے کالج سے گذرنے والے/ایوب کے خلاف تقریریں کرنے والے ذوالفقارعلی بھٹو سے شکایت کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایوب کے خلاف نعرہ بازی ہوتی ہے، ایوبی آمریت کو یہ اظہار ناگوار گزرتا ہے۔ پولیس روکنے آ جاتی ہے، گولی چلتی ہے اور اسی کالج کے فرسٹ ائیر کے نوجوان شہید عبدالحمید کی لاش گرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

بس تب ایک لاش کیا گری پورے ملک کا سالوں بھوک، ننگ، جبر اور ذلت برداشت کرتا ہوا بے بس و بے کس مظلوم اور محروم محنت کش طبقہ کھڑا ہو گیا۔۔ ملک کا چپہ چپہ ایوب کتا ہائے ہائے، ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگانے لگا۔ نوجوانوں، کسانوں اور مزدوروں کا غم و غصہ جدوجہد میں بدلنے لگا۔ جگہ جگہ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان۔ جیرہا رہاوے اوہو کھاوے سوشلزم آوے آوے کے نعرے گونجنے لگے۔ تحریک آگے بڑھتی گئی ملوں اور جاگیروں پر قبضے ہونے لگے۔ بالادست طبقے اور ان کے گماشتہ لوگوں اور اداروں کا ظلم پاش پاش ہونے لگا۔ جبری احترام کے سب ضابطے خاک میں ملنے لگے۔ ذوالفقارعلی بھٹو قائدِ عوام بن گئے۔ بقول منو بھائی ، بھٹو جدھر جاتے عوام کا سیلاب امڈ آتا۔ اور بھٹو عوام کے کندھوں پہ سوار ایسے نظر آتا سمندر میں تیرتا ہوا تنکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسوس یہ عوامی سرکشی، یہ انقلابی تحریک ایک سوشلسٹ انقلاب کا روپ نہ دھار سکی۔ جس کے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں۔ اور ان عوامل کیساتھ ساتھ خود بھٹو کی غلطیاں بھی۔۔۔۔۔۔۔
آج جس ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ منائی جارہی ہے اس کی تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود اس کی عظمت کے ثبوت میں ایک اعتراف اور ایک جراتِ رندانہ کافی ہے۔۔۔

اعتراف یہ ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے تاریخ کے بدترین، ذلیل اور خبیث ڈکٹیٹر ضیاءالحق کا قیدی ہوتے ہوئے کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر اپنی یادوں کی کتاب "اگر مجھے قتل کیا گیا” میں یہ تحریر کیا ہے کہ "میں نے پاکستان کے دو متضاد طبقوں غریبوں اور امراء کو ایک ساتھ چلانے کی کوشش کی جو میری غلطی تھی۔ میں آج یہاں بیٹھ کر اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ ان طبقات میں مصالحت نا ممکن ہے بلکہ ایک طبقے کی زندگی دوسرے طبقے کی موت ہے”۔۔۔

رہی جراتِ و بیباکی تو وہ یہ کہ موت کے ڈر سے مر جانے کی ذلت کو جھٹک کر شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی یقینی موت کو اپنے سامنے اور اپنی سانسوں کے قریب محسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” میں اس بات کو پسند کرونگا کہ تاریخ کے ہاتھوں کچلا جانے کی بجائے فوج کے ہاتھوں مارا جاؤں”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

About The Author