نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ حاجی پور شریف ضلع راجن پور

حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ قبلہ عالم نور محمد مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ کے دست بعیت تھے

تحریر:ملک خلیل الرحمان واسنی حاجی پور


ضلع راجن پور کی دھرتی صوفیائے کرام اور اولیائے عظام سے خالی نہیں ہے۔ضلع راجن پور کے تاریخی شہر حاجی پور شریف میں حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے ایک تحقیق کیمطابق آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔آپ کے آباؤ اجداد تبلیغ اسلام کے سلسلے میں عرب سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے۔ابتداء میں کیچ مکران (بلوچستان ) میں سکونت اختیار کر کے رشدو ہدایت کی شمعیں روشن فرمائیں پھر وہاں سے نقل مکانی فرماتے ہوئے سندھ اور پھر "چاہ نارووالہ” تشریف لائے۔

چاہ نارووالہ تحصیل و ضلع راجن پور کے ایک قصبہ حضرت والا کے قریب ہے۔
حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ قوم” پرہار ” سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد گرامی کا نام خواجہ میاں صالح محمد رحمتہ اللّہ علیہ تھا اور دادا جان کا مولانا محمد یوسف رحمتہ اللّہ علیہ تھا آپ کی ولادت باسعادت 1148ہجری میں چاہ نارووالہ ضلع راجن پور کے مقام پر ہوئی۔


آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی بعد ازاں انہیں ملتان شریف کے معروف مدرسہ "چہار یار” مولانا محمد اسماعیل رحمتہ اللّہ علیہ کے ہاں داخل کرایا گیا وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس چاہ نارووالہ تشریف لائے اور اپنے والد صاحب کے قائم کردہ مدرسہ میں پڑھانا شروع کردیا بہت ہی کم عرصہ میں آپ کے علم وفن ،فکرو اغناء اور درس وتدریس کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اور کچھ عرصہ نالہ قطب نزد شاہ پور میں مقیم رہ کر دینی درسگاہ قائم کی بالآخر اقوام برڑہ کی دعوت پر عقیدت و محبت کے سبب حاجی پور شریف میں مکمل سکونت اختیار فرمائی۔


حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ قبلہ عالم نور محمد مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ کے دست بعیت تھے جنہوں نے آپکو خلافت سے سرفراز فرمایا اور آپ کو "خلیفہ اعظم ” ہونے کا اعزاز بھی بخشا۔
سلسلہ چشتیہ میں حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ کا سلسلہ نسب 16واسطوں سے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللّہ علیہ سے اور 18واسطوں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللّہ علیہ سے اور 33واسطوں سے اول المرسلین ختم الرسل سید العرب والعجم محبوب رب العالمین ،رحمت اللعالمین سیدنا محمد الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم اجمعین سے جا ملتا ہے
حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ نے رشدوہدایت کی شمعیں روشن فرمائیں وہیں تکریم انسانیت کے عملی مظاہرے بھی فرمائے اور اس کے سبب کئی کئی خاندانوں کو مشرف بہ اسلام فرمایاپرانے دیہاتوں میں آج بھی روایت ہے کہ نئے گھر میں یا ویسے اللہ والوں کے قدم دلوائے جاتے ہیں اس طرح ایک ہندو خاندان نے رمضان المبارک میں اپنے گھر بلوایا اور اپنے مقدس برتن میں اپکو شربت پیش کیا تو آپ نے نوش فرمالیا معیت میں علماء و مشائخ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تو آپ نے فرمایا کہ ایک روزہ توڑنے کے بدلنے ساٹھ روزے بھی رکھ سکتا ہوں اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلا سکتا ہوں مگر کسی کا دل نہیں توڑ سکتا جس پر وہ تمام ہندو خاندان توبہ تائب ہوکرآپکے سبب مشرف بہ اسلام ہوا
اسی طرح نواب نصیر خان جوکہ اپنی بیوی کی موجودگی میں اپنی سالی سے شادی کا خواہشمند تھا علماء سے فتویٰ طلب کیا تو تمام علماء نے شریعت کیمطابق اسکی رائے کےخلاف فتویٰ دیا تو اس نے علماء کو جیل میں بند کردیا
جب آپ کو علماء کے جیل میں ڈالنے کا معلوم ہوا تو آپ نے نواب کو کہا کہ علماء کو جیل سے نکالو میں آپ کے حق میں فتویٰ دیتا ہوں
چنانچہ جب علماء جیل سے باہر آگئے تو آپ نےانتہائی جرآت سے فرمایا کہ آپ شادی کرسکتے ہیں کیونکہ حدیث نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ "اور جب تجھ سے حیاء فوت ہوجائے جو دل چاہے کرتے رہو” اور پھر فرمایا کہ
” بے حیاء حرام زادوں کے لیئے ہر چیز جائز ہے”
” بے حیاء باش ہرچہ خواہی کن”


جس پر نواب پر لرزہ طاری ہوگیا اور فوری طور پر اپنے کیئے پر شرمندہ ہوکر توبہ تائب ہوا۔
تونسہ شریف بستی سوکڑ کے ایک مولوی صاحب خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ کے مرید کا خراسان کے ایک عالم کیساتھ نبی پاک کے جسمانی معراج پاک بارے اختلاف ہوا خراسان کا عالم معراج روحی کا قائل تھا جس پر مرید نے اس عالم کو کہا کہ آپکی یعنی خواجہ صاحب کی خدمت میں چل کر اسکی تحقیق کراتے ہیں دونوں عالم دین نالہ قطب سے کچھ فاصلے پر تھے خواجہ نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ مسجد شریف کے نزدیک چھاندن کے نیچے کھٹ(چارپائی) پر بیٹھے ہوئے شمال کی طرف علماء کی دلی کیفیات کا اندازہ لگا کر اپنی چارپائی سمیت پرواز فرماتے ہیں تھوڑی دیر بعد واپسی پر خراسان کے عالم کو فرماتے ہیں(یہ خاک پائے مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بمع چارپائی عرش بالا کی سیر کر سکتا ہے تو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا معراج جسمانی کیسے ناممکن ہے مولانا صاحب خواجہ صاحب کی اس کرامت سے بہت متاثر ہوئے
ایک دن آپ کے ایک غلام نے کسی عورت کو نظر بد سے دیکھا آئندہ رات خواب میں ملائکہ اسکی آنکھوں میں لوہے کی سلاخوں کو دوزخ کی آگ سے گرم کر کے بار بار مارتے رہے بعد نماز فجر حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ بیگانہ عورت کو نظر بد سے دیکھنے کا عذاب کیا ہوسکتا ہے تو آپ نے فرمایا جو شخص سزا کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرچکا ہو اسے مزید سوال کرنے کی گنجائش نہیں
ایک مرتبہ خواجہ قبلہ عالم مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ بمع اپنے خلفاء بستی کہر فقیراں ضلع مظفر گڑھ پہنچے ایک بوڑھی عورت جس کا اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا تھا قبلہ عالم مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ سے بارگاہ الٰہی میں مردہ بچے کی واپسی کی درخواست کی جس پر آپ نے فرمایا سب سے پیچھے انیوالا بزرگ آپکی راہنمائی کرسکتا ہے حضرت شاہ سلیمان تونسوی رحمتہ اللّہ علیہ نے بوڑھیا سے فرمایا اماں اگر خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ آپ کا کہنا نہ مانیں تو خواجہ قبلہ عالم و عالمیان خواجہ نور محمد مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ کا واسطہ دینا پھر آپ کاکام بن جائے گا معمول کیمطابق خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ جلوس کے آخر میں تھے آپکی آمد پر بوڑھی عورت نے آپ ے بچے کے لیئے دعا طلب کی تو خواجہ صاحب نے حکیم کو دکھانے کا مشورہ دیا بوڑھی عورت نے جب مرشد کریم کا واسطہ دیا تو خواجہ نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ نے نبض دیکھ کر فرمایا مائی صاحبہ بچہ تو زندہ ہے تو خوامخواہ آہ و فغاں کررہی ہے پانی پر دم کر کے بچہ کے منہ میں ڈالا اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے بچہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا اٹھ بیٹھا


ایک مرتبہ خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ گھوڑی پر سوار مہار شریف اپنے مرشد کریم کے ہاں جا رہے تھے سرراہ ایک بوڑھا آدمی لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر رکھے جارہا تھا باتوں ہی باتوں میں جب آپکو علم ہوا کہ یہ بوڑھا قوم کھرل سے تعلق رکھتا ہے فورا اسے اپنی گھوڑی پر سوار کیا اور لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر رکھ لیا ساتھ مریدین نےلکڑیوں کا گھٹا اٹھانے کی گزارش کی تو فرمایا یہ میرے مرشد کی قوم سے تعلق رکھتا ہے اسکو گھر تک پہنچا نے کی سعادت میں خود ہی حاصل کرونگا اس سفر میں لکڑیوں کا گھٹا خواجہ صاحب کے سر سے ایک ہاتھ کے فاصلے پر رہا
ایک مرتبہ خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ اپنے حجرہ میں بعد نماز فجر نفی اثبات کے ذکر میں مشغول تھے کہ آپکے خدمت گزار میاں خدا بخش مہار حسب معمول چھاچھ اور مکھن پہنچانے آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جب خواجہ صاحب لا الہ فرماتے ہیں تو اعضاء سے دھواں نکلتا تھا اور جسم کے تمام اعضاء علیحدہ علیحدہ ہوجاتے تھے جب الا اللہ فرماتے تو جسم کے اعضاء بحال ہوجاتے
اور آپ جب اسم اعظم اللّٰہ کا کثرت سے ذکر فرماتے تو آواز نو ، نو میل تک سنائی دیتی تھی
اور آپکے مشہور اقوال میں سے ایک مشہور قول بہت مشہور ہے
"یک لحظہ یاد دوست غافل شد کافر شد”
خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ نے اپنے علمی اور روحانی فیوض و برکات سے بہت سی اقوام کو نوازا آپ کے خلفاء اس سرزمین کے قرب و جوار ، اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے ہیں آپ کے مشہور خلفاء میں حضرت خواجہ محمد عبداللّٰہ چانڈیہ رحمتہ اللّہ علیہ (ڈیرہ غازیخان),حضرت خواجہ محمد ابوبکر احمدانی رحمتہ اللّہ علیہ(حاجی پورشریف),حضرت خواجہ نور محمد ثالث برڑہ رحمتہ اللّہ علیہ(محمد پورشریف),حضرت خواجہ محمد حسن پتافی رحمتہ اللّہ علیہ(راجن پور) حضرت مولانا محمد گھلوی رحمتہ اللّہ علیہ (حاجی پورشریف) حضرت مولانا نور احمد تونسوی،حضرت میاں حسن علی تونسوی رحمتہ اللّہ علیہ (تونسہ شریف) حضرت مولانا محمد عابد سوکڑوی رحمتہ اللّہ علیہ، حضرت مخدوم سید حامد گنج بخش رحمتہ اللّہ علیہ (اوچ شریف) نواب محمد رحمتہ اللّہ علیہ (اختیار خان داد پوترہ )شامل ہیں جنہوں نے آگے چل کر اپنے اپنے علاقوں میں رشدوہدایت کی مزید شمعیں روشن فرمائیں
حضرت خواجہ نور محمد نارووالہ رحمتہ اللّہ علیہ نے بہت مختصر عمر پائی اور عمر کے آخری ایام میں بیمار ہوئے اور بالآخر 06جمادی الاؤ ل 1204ہجری کو اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے خیر باد کہہ گئے اور اسی حوالے سے ہر سال 04,05,06 (چار،پانچ،چھ)جمادی الاول کو تین روزہ عرس مبارک حاجی پورشریف میں انتہائی محبت عقیدت واحترام کیساتھ منایا جاتا ہے اور پاکپتن شریف میں بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللّہ علیہ کے مزار پر انوار پر بہشتی دروازہ کھلنے کی تقریب کیطرح آپ کے مرشد کریم حضرت خواجہ قبلہ عالم نورمحمد مہاروی رحمتہ اللّہ علیہ کے حکم سے 6 اور7 محرم الحرام کی شب بعد نماز مغرب تا نماز فجر ہر سال بہشتی دروازہ کھلنے کی مبارک تقریب بھی منعقد ہوتی ہیں جسکی قفل کشائی کی سعادت سجادہ نشین دربار عالیہ حاصل کرتے ہیں جسمیں دنیا اور ملک بھر سے عقیدت مند اور محبین ، مریدین شرکت کرتے ہیں اور حاجی پورشریف میں آپ کا مزار پر انوار تجلیات کا مرکز ہے آپکے وصال پر ملال کےدوسال کے بعد آپ کے مزار کی تعمیر کا کام مکمل ہوا اور مستند روایات کیمطابق آپکے مزار کی تعمیر نواب اختیار خان،نواب اسلام خان(نواب آف گڑھی اختیار خان) نے کرائی جس کی نگرانی حضرت خواجہ عاقل محمد کوریجہ رحمتہ اللّہ آف کوٹ مٹھن شریف نے کی۔
آپکی وصال پر ملال کے بعد حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اللّٰہ ملتانی رحمتہ اللّہ علیہ(ملتان شریف) ، حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمتہ اللّہ علیہ (تونسہ شریف) ہفت زباں صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللّہ علیہ (کوٹ مٹھن شریف) و دیگر مشائخ عظام و علماء کرام نے آپکے مزار پر انوار پر چلہ کشی بھی فرمائی ۔


ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف تحصیل جام پور ضلع راجن پور پنجاب پاکستان
فون نمبر 03316014788
Email: wasnikhalil@gmail.com

About The Author