پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پنجاب پولیس نےمال روڈ پر طلبہ یکجہتی مارچ کے سینکڑوں شرکا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
جمعے کے روز لاہور سمیت پاکستان بھر میں سینکڑوں طلبہ اپنے حقوق کے مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
طلبہ یکجہتی مارچ کے شرکا کے خلاف لاہور پولیس نے اداروں کے خلاف تقریریں کرنے اور عوام کو نفرت انگیزی پر اکسانے جیسی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
لاہور پولیس نے اس احتجاج کے خلاف درج اپنی رپورٹ میں پروفیسر عمار علی جان اور سماجی کارکن فاروق طارق کو بھی نامزد کیا ہے۔ پولیس ایف آئی آر میں شرکا کی بڑی تعداد کو نامعلوم لکھا گیا ہے۔
لاہور میں اس احتجاج کا حصہ بننے پر پولیس نے مشال خان کے والد اقبال لالا کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیاگیا ہے۔ مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں سنہ 2017 میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں طلبا نے تشدد کرکے شہید کر دیا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی سے مبینہ طور پر لاپتہ کیے جانے والے عالمگیر وزیر سمیت تقریباً تین سو نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس ایف آئی آر میں الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ ریلی کے شرکا نے حکومتی اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کیں۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم عالمگیر وزیر جو ایم این اے علی وزیر کے بھتیجے ہیں، کو مبینہ طور پر کیمپس سے لاپتہ کیے جانے پر ٹویٹر پر مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر کو یونورسٹی سے چند نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں جو انتہائی شرمناک ہے۔
Alamgir Khan Wazir (Ali Wazir’s nephew) has been picked up by d “Na Malooms” a few hours ago from Punjab University. This is extremely condemnable & Sharamnak we demand immediate release of Alamgir and the perpetrators must be charged for this Un lawful Act. #ReleaseAlamgirWazir pic.twitter.com/fHe3p03Uo7
— Mohsin Dawar (@mjdawar) November 30, 2019
خیال رہے کہ پاکستان کے درجنوں شہروں میں نماز جمعہ کے بعد نوجوانوں کے طلبا یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سمیت کئی شہروں میں طالب علم اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
پروفیسر عمار علی جان نے ٹویٹر پر پولیس مقدمے کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے گورنر پنجاب سے ملاقات کرکے انھیں باور کرایا ہے کہ طلبا کا احتجاج پرامن تھا۔
We have been nominated in an FIR. We met Governor who assured us of support. Ministers tweeted in our support. Protestors gathered & dispersed peacefully.
Do we even have a govt in our country? Can we trust anybody's words?
We are peaceful citizens & will remain undeterred. pic.twitter.com/KiixJt1uRj
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) December 1, 2019
لاہور میں ناصر باغ سے شروع ہونے والے اس مارچ میں طلبا کی بڑی تعداد نے پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچ کر ’انقلاب انقلاب‘ کے نعرے لگائے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
طلبا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف باہر نکلے ہیں۔
اس احتجاج میں شریک آئمہ کھوسہ نے ٹویٹر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلبا کی تصاویر شیئر کی ہیں۔ جو اس احتجاج کے ذریعے مبینہ طور پر اپنے لاپتہ کیے گئے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
https://twitter.com/aimaMK/status/1201045360602501121?s=20
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ