نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ففتھ جنریشن وار کے جھٹکے۔۔۔نوید چوہدری

خاموش ہو کر سائیڈ لائن پر بیٹھنے والوں کیلئے گراﺅنڈ میں کوئی جگہ ہی نہیں رہے گی ۔موجودہ حکومتی ٹیم فارغ ہو گئی تو کوئی اور آ جائے گا۔

ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟یہ سوال جناب چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے بھی پوچھ لیا۔آرمی چیف کوتوسیع کے کیس میں عدلیہ کو جس قسم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑاوہ شاید فاضل جج صاحبان کیلئے بالکل غیر متوقع تھا۔چیف جسٹس صاحب نے دوران سماعت یہ تک کہہ دیاکہ ہم نے آئین کو کیادیکھاہمیں سی آئی اے اور راءکا ایجنٹ بنادیاگیا۔

ویسے تو جج حضرات کو ہمیشہ سے اس مشکل صورتحال کاسامنا کرنا پڑ تا ہے کہ جب وہ کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ دیں تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے۔جب معاملہ ملک کے سب سے طاقتور عہدیدار کا ہو تو یقیناً لوگوں کی دلچسپی اور مختلف حلقوں میں حساسیت بہت زیاد ہ بڑھ جاتی ہے۔اس کیس میں عدلیہ کےخلاف علانیہ ہتک آمیز رویہ اختیار کیاگیا۔

ایک بڑے اینکرنے اپنی ٹویٹ کے ذریعے کھلی دھمکی دی کہ اگر موافق حکم نہ آیا تو اسے برداشت نہیں کیاجائیگا۔ریاستی پروپیگنڈا کے لیے قائم کردہ ایک چینل نے تو اپنے اینکر کے ذریعے بے ہودہ ادا کاری کرتے ہوئے سلپ آف ٹنگ(زبان پھسلنے) کی آڑ لے کر اعلیٰ عدالتی شخصیت کے ساتھ ایک جانور کا نام جوڑ کر رکیک حملہ کیا۔اسی طرح سوشل میڈیا پربہت کچھ آیا۔

ایک صاحب کا کلپ وائرل ہے جو بظاہربہت مذہبی نظر آتے ہیں۔موصوف نے ذکر اذکار سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر مغلظات کی بوچھاڑ کردی۔ظاہر ہے اس طرح کی حرکات بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی تھیں۔سب کچھ بھانپ کر ہی سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ ان کے ساتھ آخر ہو کیا رہا ہے۔

یہ وہی کچھ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے خصوصاً سیاستدانوں کے ساتھ ہوتا آ رہاہے، ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان میں کئی حکومت میں رہنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے حالانکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ ”مہم“کہاں سے چلائی جا رہی ہے۔اب اگر اعلیٰ ترین عدلیہ کو بھی اس کا عملی تجربہ ہو گیا ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ اداروں کے تعاون سے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کی کوشش کی جائیگی۔

اور اگر ایسا نہ ہو اتو وہ وقت دور نہیں کہ اسکی لپیٹ میں وہ بھی آ جائیں گے جو باہر بیٹھ کر مزے لے رہے ہیں ،کبھی کسی کی بیماری کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی کسی کی مجبوریوں کا تمسخر اڑایاجا تاہے کبھی کسی کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور کبھی کسی کو ملک دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

ویسے اب تک تو کسی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں ہوا،پچھلے دور میں تو بات بات پر ایسا ہو جاتا تھا۔خصوصاً پچھلی حکمران جماعت ن لیگ تو یہ کہتی تھی کہ ہمیں نااہل لیگ بنانے کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے۔اسی لیے ہمارے ارکان کو ڈس کوالیفائی کیا جا رہا ہے۔خوب یاد آیا کہ انہی دنوں طلال چودھری نے اپنی پانچ سالہ نا اہلی ختم کرانے کیلئے نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی جو مسترد کردی گئی۔

بہر حال سپریم کورٹ کے اس تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کررہے تھے سماعت کے تیسرے روز تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرمی چیف کو ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایت کردی۔اس سے پہلے یوں لگ رہا تھا کہ شاید کوئی واضح فیصلہ آئے گا،نئی تاریخ رقم ہو گی۔پر اب تو یہ طے ہو چکا ہے کہ جناب چیف جسٹس کانام سب سے زیادہ نواز شریف نا اہلی کیس کے حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا۔

اسکے ساتھ ہی ان کے ریمارکس کا بھی ذکر ہوتا رہے گا جن میں سابق وزیر اعظم کو سسلین مافیا اور گاڈ فادر کہا گیا تھا۔آرمی چیف توسیع کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومت کی نالائقیوں کا پول کھول کررکھ دیا ۔یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس سرکار کے پاس اب تک ایسا کوئی بندہ موجود نہیں جو ڈھنگ کی سمری تک تیار کر سکے۔ فاضل چیف جسٹس کو ایک موقع پر یہ کہنا پڑا کہ بہتر ہو گا حکومتی لیگل ٹیم میں شامل ارکان کی ڈگریاں چیک کرائی جائیں۔کیونکہ نظر آرہا ہے کہ کیس خراب کرنے کیلئے بہت محنت کی گئی

آرمی چیف کو شٹل کاک بنادیا گیا اس اہم ترین مقدمے کے حوالے سے سمریاں باربار بنتی رہیں اور ہر بار غلط نکلیں۔ایک مرحلے پر وزیر قانون نے استعفیٰ دیا تو یو ںمحسوس ہوا کہ حکومت کو اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ خبر آ گئی کہ موصوف سپریم کورٹ جا کر آرمی چیف کی جانب سے خود پیش ہونگے۔فروغ نسیم کو اچھی طرح سے علم تھا کہ پاکستان بار کونسل نے ا ن کا لائسنس معطل کررکھا ہے۔

خیر عدالت میں انہوں نے کچھ کیا بھی نہیں اور سارا کیس عدالتی تحمل کی پالیسی کے تحت نمٹا یا گیا۔اسکے باوجود فروغ نسیم کو پھر سے وزیر قانون بنا دیا گیا۔ملک کے اہم ترین عہدے کے حوالے سے حکومتی نا اہلی، بوکھلاہٹ اور غیر ضروری پھرتیوں نے پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کرائی۔ابھی معاملے کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے مضحکہ خیز دعویٰ کر دیا کہ اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش نا کام ہو گی۔

انہوں نے یہ کہا کہ اس گھناﺅنے منصوبے کے پیچھے وہ عناصرتھے جن کی دولت بیرون ملک پڑی ہے اور ملکی حالات خراب کرکے اصل معاملات سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔عمران خان کا بیان دراصل اسی پالیسی کا حصہ ہے کہ بارش بھی ہو جائے تو اپوزیشن پر ڈال دو۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کھل کر واضح کیا کہ آرمی چیف کی توسیع جیسے حساس ترین معاملے پر ساری غلطیاں حکومت نے کیں۔سمریاں کسی جواز اور حوالے کے بغیر بنائی گئیں۔کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کونسا قانون لاگو ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے حکومت کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرادیا۔عمران خان نے ہر بات پچھلی حکومت پر ڈالنے کی پالیسی کے تحت اسے بھی” کرپٹ مافیا“ کی جانب دھکیل دیا۔جیسے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے مشورے اور سمریاں اپوزیشن نے تیارکی ہوں۔

ایک ٹی وی پروگرام میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے دعو یٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہے تو پروگرام بیچ میں ہی رکوا دیا گیا اس سے پہلے برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی کے ایک کالم نگار نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن کی معطلی کو حکومت کے لیے بہت بہتر قرار دیا اور ٹویٹ کرکے اسکی وجوہات بھی بیان کیں ۔

لوگوں کا سیاسی شعور جس سطح پر پہنچ چکا ہے،وہاں ممکن ہی نہیں کہ کسی کی بھی کوئی غلط بات یا جھوٹا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے اب یہ معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتفاق رائے پیدا کرکے کوئی مناسب حل نکالا جاتا مگر عمران خان اپوزیشن پر ہی پل پڑے۔لگتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ یہ معاملہ آبرو مندانہ طریقے سے حل ہو۔یا پھر اسے ا پنی طاقت کا بہت زیادہ زعم ہے کہ جس طرح سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد نا کام ہوئی اسی طرح سے اپوزیشن کے ارکان گردنیں جھکا کر ایک بار پھر حکومتی موقف کے حق میں ووٹ دے دیں گے ،

یقیناً ایسا ہواتو ہر گز غیر متوقع نہ ہوگا۔دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں فاختہ گروپوں نے کمان سنبھال رکھی ہے۔معمولی ریلیف کے عوض پارٹی کی سطح پر ہی غیر مشروط حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔

ورنہ طاقتوروں کے پاس دوسرے راستے تو ہیں ہی۔کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ اپوزیشن کو پوراا دراک ہی نہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے جاری مشق کا اصل مقصد عمران خان کو اقتدار میں لانا نہیں بلکہ ٹارگٹ ا یسے تجربہ کار سیاستدانوں اور انکی پارٹیوں سے جان چھڑانا ہے جوجان چکے ہیں کہ ملک کے مسائل کیا ہیں اور حل کی جانب پیش قدمی کب اور کیسے کرنی ہے۔

احتساب وغیر ہ کے نعرے،کرپشن کے قصے،غداری کی باتیں دراصل اسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش ہے۔سادہ سی بات ہے کہ اگر ملک میں احتساب کا شفاف عمل شروع ہوگیا تو کچھ دیر بعد ہی سہی لیکن کوئی بھی دائرے سے باہرنہیں رہ سکے گا۔

کون طاقتورچاہتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ ہو؟ ملک میں سیاسی بحران ہے اور ا س کا اندازہ جمعہ کو ملک بھر میں ہونے والے ان اجتماعات سے لگایا جا سکتا ہے جو سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کیلئے منعقد کیے گئے۔اس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوا کہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے ایک بہت بڑے مارچ اور دھرنے کی صورت میں ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کو گیم میں ان ہونے اور مخالفین کو آﺅٹ کرنے کا موقع دیا مگرآرام طلب اور مصلحت پسند سیاسی قائدین ہاتھ باندھ کر نکل گئے۔ویسے اب بھی یہ امیدیں لگائی گئی ہیں کہ برسر اقتدار ٹولہ آپس میں لڑے گا تو ہماری لاٹری نکل آئے گی۔ہو سکتا ہے حکومت کرنے والوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہوں اور آنے والے دنوں میں بڑھ جائیں لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو ہی ہوگا؟

سیاستدان جب تک اپنا حق لینے کیلئے خود میدان میں نہیں آئیں گے عوام بھی انکے پیچھے چلنے پر تیارنہیں ہونگے۔ملک مسائل کی گرداب میں دھنستا چلا جائے گا۔سی پیک پر امریکہ اور چین کی کھلی بیان بازی دھماکہ خیز حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ملک میں تجربہ کار اور سنجیدہ قیادت کی کمی ہی نہیں قحط الرجال ہے۔اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بزدلی کا سلسلہ جاری رکھا تو خلا کو کوئی اور پورا کرے گا۔

خاموش ہو کر سائیڈ لائن پر بیٹھنے والوں کیلئے گراﺅنڈ میں کوئی جگہ ہی نہیں رہے گی ۔موجودہ حکومتی ٹیم فارغ ہو گئی تو کوئی اور آ جائے گا۔ملک کو ہر محاذ پر چیلنج درپیش ہیں۔تمام تر دعوﺅں کے باوجود پیچیدگیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔سیاسی جماعتیں کمزور ہو ئیں تو سب کچھ کمزور ہو جائے گا۔اسکا مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی ایک طاقتور ہو جائے گا بلکہ گیم آﺅٹ آف کنٹرول ہو جائے گی۔

About The Author