پیپلزپارٹی کی سیاسی جدوجہد اور بدقسمتیوں کی داستان نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔
بھٹو صاحب، سکندرمرزا کی کابینہ میں وفاقی وزیر بنے، وزیر بننے کیلئے انتخاب سکندر مرزا نے ان کی اقوام متحدہ میں گئے پاکستانی وفد کے رکن کی حیثیت سے کارکردگی دیکھ کر کیا۔
یار لوگ نصف صدی سے مالا جپ رہے ہیں کہ بھٹو کو ایوب خان سیاست میں لائے تھے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں 1971ء سے قبل کی غیرجمہوری حکومتوں اور خصوصاً ایوب ویحییٰ کے مارشل لائوں کا کردار بھلا کر منصورہ کے چبائے لقمے منہ میں ڈالے آج بھی کچھ لوگ بھٹو کو کوستے ہیں۔
پیپلزپارٹی قائم ہوئی اس کے نظریات اور عوام دوست سیاست سے گھبرائے رجعت پسندوں نے بھٹو اور ان کی جماعت پر کونسا الزام ہے جو نہیں لگایا۔
یہاں تک کہ اسلام پسندوں کے ہم خیال اخبارات وجرائد میں بھٹو کو گھاسی رام اور ان کی مرحوم والدہ کو ہندوعورت لکھا گیا۔
بھٹو کیساتھ یہ بھی ہوا کہ چار اپریل1979ء کو انہیں پھانسی چڑھانے کے بعد ایک اعلیٰ شخصیت ( جنرل ضیاالحق) کے حکم پر ان کی مسلمانی چیک کی گئی۔
بھٹو بڑے آدمی تھے خوبیوں اور خامیوں سے گندھے ہوئے لاریب ان سے بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئیں مگر خوبیاں بھی تھیں۔
سیاست کو تاج محلوں،ڈیروں اور حجروں سے نکال کر گلی محلوں میں وہی لائے تھے۔
ان کے دور میں ہی لاکھوں پاکستانی روز گار کمانے خلیجی ریاستوں سعودی عرب اوریورپی ممالک گئے جس سے سماجی تعمیر وترقی کے نئے در وا ہوئے۔
بھٹو پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ مذہب کے اونٹ کو سیاست کے خیمے میں لائے۔
ساعت بھر کیلئے رُک کر یہ سمجھ لیجئے کہ قرارداد مقاصد جناب لیاقت علی خان کی رضامندی اور تعاون سے منظور ہوئی تھی ۔
سوشل ڈیموکریٹ ریاست کی بجائے اسلامی ریاست کا تصور لیاقت علی خان کے دور میں پیش کیا گیا ان کے دور میں اسلامی قومیت کی تعبیرات سید مودودی سمیت متعدد علماء ریڈیوپاکستان سے نشری تقاریر میں پیش کرتے رہے تھے۔
1956ء کے دستور میں مذہب کا اونٹ پہلی بار سیاست کے خیمے میں داخل ہوا۔
بلاشبہ بھٹو مقبولیت کی جس معراج پر تھے وہ سیاست اور مذہب کو الگ کرنے کیلئے قدم اُٹھاتے تو عوام کی اکثریت اسی طرح ان کی ہمنوا ہوتی جیسے انہوں نے1970ء کے انتخابات کے موقع پر 27مولویوں کے اس فتوے کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پیپلزپارٹی اور بھٹو کو ووٹ دینے سے نکاح فسخ ہو جائیں گے۔
4اپریل1979 کی صبح بھٹو پھانسی چڑھا دیئے گئے۔1973 کا دستور، ایٹمی پروگرام، انتخابی قوانین میں بہتری، زرعی اصلاحات، 150روپے لیکر 300روپے کی وصولی پر نجی تعلیمی اداروں میں تنخواہ کی رسیدوں پر دستخط کرنے والے اساتذہ کو تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیکر ملازمت کا تحفظ فراہم کیا۔
ان کی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر اعتراض کرنے والے کیا جانتے ہیں کہ 1960ء اور1970ء کی دہائیوں میں تیسری دنیا میں نیشنلائزیشن کا دور دورہ تھا
تیسرا مارشل لاء لگانے والے جنرل ضیاء الحق خالص بھٹو کا انتخاب تھے وہ انہیں چھٹے درجہ سے اُٹھا کر اوپر لائے۔
اس انتخاب میں بھٹو کے دوست اُردن کے شاہ حسین کا مشورہ بھی شامل تھا جن کیلئے ضیاء الحق اور خاقان عباسی اُردن میں تعیناتی کے دوران خصوصی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔
بھٹو رخصت ہوئے انہوں نے تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں مرنا پسند کیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو نے کی۔
1979ء سے1987ء کے درمیان ماں بیٹی کیلئے کونسا الزام تھا جو اُچھالا نہ گیا۔ اسلامی صحافت کے علمبرداروں کو ضیاء الحق میں محمود غزنوی دکھائی دیتا تھا۔
جنرل ضیاء طیارے کے حادثے میں رخصت ہوئے۔ 1988ء کی انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل (اس سیل کے سربراہ حسین حقانی تھے) نے غلیظ تحریروں اور جعلی تصاویر والے پمفلٹ پنجاب بھر میں تقسیم کئے۔
آئی جے آئی کے ایک امیدوار حافظ سلمان بٹ نے انتخابی مہم کے دوران بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کیلئے علی پارک لاہور میں یاوہ گوئی کی تو اگلی شام ان کے اعزاز میں نواز شریف نے عشائیہ دیا۔
بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو اسلامی صحافت کے متوالوں نے قلموں کو تلوار بنا لیا۔
وہ بھارتی ایجنٹ، سیکورٹی رسک، امریکی پھٹو اور نجانے کیا کیا قرار پائیں۔
آئی جے آئی اور پنجاب حکومت (پنجاب میں نوازشریف وزیراعلیٰ تھے) کے وفادار صحافیوں نے ان کے شوہر کو مسٹر ٹن پرسنٹ بنا کر پیش کیا۔
اگست1990ء میں صدر اسحق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔ 1988ء سے اکتوبر1999ء کے درمیان دوبار پیپلز پارٹی اور دوبار میں ایک مرتبہ اسلامی جمہوری اتحاد کی طرف سے دوسری بار نون لیگ کی جانب سے نوازشریف وزیراعظم بنے۔
یہ چاروں حکومتیں ایک جیسے الزام پر برطرف ہوئیں یعنی کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات پر ہی
جناب نوازشریف نے1990ء کی دہائی کے دونوں ادوار کی طرح 2008ء سے 2013ء کے درمیان والے دوراقتدار میں آصف علی زرداری کیلئے پروپیگنڈے کی پالیسی جاری رکھی۔
مسٹر ٹن پرسنٹ کو مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بنا کر پیش کیا گیا۔ آصف علی زرداری ان دنوں جعلی اکاؤنٹس کے جس ”گھٹالے” میں ہمشیرہ سمیت گرفتار ہیں یہ کیس جناب نوازشریف کے دوراقتدار کے سال2015ء میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے حکم پر بنا۔ چودھری نثار نے اس کیس کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف کو بتایا یہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ایما پر ہو رہا ہے۔
زرداری اور ان کی ہمشیرہ پچھلے پانچ ماہ سے جیل میں ہیں، 53ارب کیسے ساڑھے تین کروڑ تک آئے اس کی تفصیل پچھلے کالم میں عرض کر چکا۔
مقدمہ سندھ کا ہے مبینہ ملزم ہمشیرہ سمیت اسلام آباد میں نیب کی عدالتی تحویل میں
اپنے صاحبزادے، بیٹیوں اور پارٹی کے اصرار کے باوجود زرداری ضمانت کروانے پر تیار نہیں۔
ان کا مؤقف ہے مقدمہ بنانے والے الزام ثابت کریں یا پھر نیب اور حکومت معافی مانگیں۔
ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ سابق جیالے جو تحریک انصاف میں شامل ہوئے ان کیلئے زہر بھرے جذبات رکھتے ہیں۔
پچھلے تیس سال کے دوران ہوئے عظیم پروپیگنڈے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
آصف علی زرداری کیساتھ اس برتاؤ پر بہت سارے سوالات ہیں، کالم کے دامن میں گنجائش نہیں فی الوقت یہی عرض کرنا ہے۔
انصاف کیساتھ بلاتکار ہورہا ہے۔
نیب کے بلند وبانگ دعوے کہاں گئے، لائے ثبوت عدالت میں دلوائے سزا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے غیرمنصفانہ طرزعمل سے غیرپنجابی اقوام میں تحفظات بڑھ رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا شدید بیمار آصف علی زرداری کو ”کچھ” ہوگیا تو راولپنڈی اس کا بوجھ اُٹھالے گا؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر