شہزاد عرفان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی متعصب صاحب اقتدار سیاسی طاقت کے گرؤں نے قومی نجی سرکاری میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب سوشل میڈیا پر اپنی گرفت کو مضبوط کر رہے ہیں۔جسکی مثال یہ کاشف بلوچ صاحب کی پوسٹ ہے۔ محترمہ کے سوال میں وہی روائیتی پنجابی مائنڈ سیٹ ہے اگر شاعری ادب پر کچھ پڑھ لیا ہوتا تو شاید سوال طفلانہ نہ ہوتا۔۔۔ محترمہ یہاں سب جانتے ہیں کہ ہردو متضاد بیانئے کے درمیان رہ کر کوئی بھی وڈیو اور پروگرام تیار کیا جائے وہ کافی پیسے اور ریٹنگ کما کر دیتا ہے۔ مگر اس سب میں بھی بہت کچھ اچھا کیا جاسکتا ہے کم از کم سوال کا علمی اور منطقی ہونا اہم ہے ۔ جب مقصد جواب حاصل کرکے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی بجائے سوال کے زریعے ایک مخصوص جانبدارانہ مائنڈ سیٹ کے ساتھ پراپیگنڈہ اشتہار بازی درکار ہو تو پھر اس طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں جیسے محترمہ نے کہا کہ خواجہ صاحب نے تو کئی زبانوں میں شاعری کی ہے تو وہ اصل میں کس زبان کے شاعر تھےیہیں سے سوال باعث ہوگیا کہ لفظ سرائیکی شجر ممنوعہ ٹہرا ۔۔۔ دنیا بھر میں کتنے ہی بڑے شاعر ایسے ہیں جو اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر مقامی اور بین الاقوامی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ کوئی ہفت زبان شاعر کہلاتا ہے تو کوئی ہشت زبان شاعر۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ انکا یہ اپنی مادری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں شاعری کرنا اتنا بڑا گناہ قرار دیا جائے کہ اب انکی اپنی زبان کی شاعری کے شاعر ہونے کا اعزاز بھی چھین لیا جائے ۔اسے دانستہ واردات کہتے ہیں۔ سیاسی واردات جسکا مطلب کسی ادب زبان پر تحقیقی علمی بحث مباحثہ نہیں بلکہ پنجابی سیاسی استعماریت کا اشتہار لگاناہے۔ کیا یہی دلیل کافی نہیں ہے کہ خواجہ فرید کی شاعری کی کافی کا ایک بند بھی بڑے سے بڑا پنجابی ادیب اپنی پنجابی زبان میں نہیں سمجھ سکتا الفاظ بول کر تلفظ اور صوت نہیں ادا کرسکتا ۔ جن پنجابی شاعر ادیبوں کو اپنی پنجابی زبان کا اصلی رسم الخط گُرمُکھی لکھنی پڑھنی نہ آتی ہو جس میں سب سے زیادہ پنجابی ادب شاعری لکھی پڑھی جاتی ہے ….پنجابی ڈومیسائل کے نام پر اور کبھی وسائل پر قبضہ گیری کے نام پر سرائیکی زبان کو پنجابی زبان کا لہجہ قرار دینے پر وقت ضائع کرتے ہیں۔اب یقینا کوئی خلائی مخلوق کی زبان میں تو نہیں کافی نہیں لکھی جارہی تھی ظاہر ہے عربی فارسی رسم الخط میں ایک ایسی منفرد زبان میں لکھی جارہی ہے جو زبان اس خطے کے جغرفیائی سیاسی ثقافتی تاریخی حدود میں مرکزیت رکھتی ہے جس کے ایک طرف سندھی دوسری طرف پنجابی تیسری طرف فارسی اور چوتھی طرف راجستھانی مارواڑی زبانوں کے لہجوں کا گھیراؤ ہے جس سے یقینا الفاظ گرائمر بلخصوص شاعری عوامی سماجی ثقافتی سطح پر اس دیکھی اندیکھی سرحدوں کے آرپار ایک دوسرے کے عوامی اور منڈیوں کیں بولے سنے جانے والے الفاظ جملوں کا تبادلہ ہو لازمی امر ہےاس لئےسرائیکی زبان ان سرحدی علاقوں بطور مادری اور مقامی بولی سمجھی جاتی ہے ۔ تقریبا دوسوسال پہلے رنجیت نے بطور فاتح خالصہ مزہبی ریاست بنائی تھی اس وقت کسی پنجاب یا پنجابی ریاست کا نام و نشان تک ہندوستان میں نہ تھا جسکی ریاستی زبان پنجابی ہو۔۔۔ پنجاب ریاست اور پنجابی زبان کو ریاست کی زبان بہت بعد میں انگریز نے پہلی بار سرکاری درجہ دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ خطہ ایک سکھ مذہبی انتہا پسند پنجابی جرنیل کی خون ریزی کے نتیجے میں حملہ آور کی زبان کا خطہ بن جائے اور مقامی زبان بولنے والے عوام اور انکے شاعر ادیب پنجابی شاعر ادیب کہلائیں ۔۔۔ایسا نہیں ہے بی بی۔۔۔ رنجیت سنگھ پنجابی سے پہلے داریوش فارس اول سے سکندر یونانی تک اور اس کے بعد عرب، ترک، افغان، فارسی، انگریز اردو سب سرائیکی وسیب فتح کرکے اپنی اپنی حکمرانیاں کرتے رہے ہیں مگر آج کے دن تک کوئی مقامی سرائکیوں کو عربی فارسی ترکی پشتو یونانی پنجابی انگریزی اردو نہیں بنا سکا وہ جو مقامی زبان بولتے تھے وہی آج بھی بولتے ہیں جسے سرائیکی کہتے ہیں اس سے قبل ملتانی کہتے تھے جسے پنجابی سکھ لہندا اور سندھی چڑھدا یا اُچا یعنی سرائیکی کہتے تھے۔ اسے کہتے ہیں زبان کی مزاحمت جو اپنی دھرتی سے مضبوط جڑت اور گہری ثقافت کی بدولت بل آخر بیرونی آبادکار چاہے حاکم وقت طاقتور آمروں کی زبانوں کو اپنے اندر ضم کرلیتی ہے اور ایک دن انہیں بھی مقامی بنا دیتی ہے۔ تہذیبوں کا ارتقا ریاستی حدود کا پابند نہیں ہوتا بلکہ تاریخی ثقافتی ارتقا کی بنیاد پر پھلتا پھولتا ہے زبان عقائد مذاہب ادب دھرتی کا سیاسی مزاحمتی بیانیہ فنون لطیفہ یہ سب ثقافتی ارتقا کا حصہ ہے ریاستی لکیر کا نہیں ریاستی لکیر کا تو یہ حال ہے کہ بھارت کے اصل پنجاب جسکے اب تین حصے ہیں وہاں کا پنجابی ادب کی گُرمُکھی لکھت پاکستان کے پنجابی شاعر ادیبوں کو علم نہیں وہ نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ جان سکتے ہیں کہ جو پنجاب بھارت میں چھوڑ آئے تھے وہاں پنجابی زبان میں کتنا بڑا ادب لکھا جارہا ہے۔ یہ پاکستانی پنجابی ادب کا بانجھ پن ہے کہ وہ دوسری ثقافتی زرخیز زبانوں کو ریاستی سیاسی اشرافیہ کی شہہ پر اسے زبردستی پنجابی بنانے پر تلے ہیں دوسروں کی جوتوں میں اپنے پاؤں ڈال کر قد اونچا کرنے کے درپئے ہیں۔ مگر آج ہر قوم اپنی قومی ثقافتی شعور میں ہوشیار ہوچکی ہے۔ نہ پنجاب کو اب ہزارہ والے اپنی زبان ادم دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی ہند کوہ یا پوٹھوہاری بانجھ پنجابی کی گود میں اپنا بچہ زبان ادب کی صورت میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ سندھ کی ثقافتی سرحد پر اس زبان کے بولنے والوں نے اس زبان کو “سرائی” کہا یعنی اونچے جغرافیہ یا خطے کی آبادی کی زبان جو سندھی زبان سے مختلف اور منفرد تھی اس لئے۔۔۔۔ اور بھارتی پنجاب والوں نے بھی وہی فارمولہ استعمال کیا اور اپنے سے نیچے یعنی جنوب کی طرف بسنے والے لوگوں یا قوم کی زبان کو “لہندا” کی بولی قرار دیا یعنی جغرافیہ کی ڈھلوان ۔۔۔جیسے سندھیوں نے اپنے سے اوپر والوں کو جغرافیائی نام دیا اسی طرح پنجابیوں نے اپنے سے نیچے والوں کو وہی جغرافیائی نام دیا لہندا ۔ جبکہ ملتان جو اس زبان تہذیب ثقافت اور تجارت کا تاریخی مرکز تھا اور اس خطے کی معیشت میں فن ادب تجارت ہنر سیاست میں میٹروپولیٹن جیسا کردار رکھتا تھا اس نے اس زبان کو پورے ہندوستان میں جغرافیائی نام کی بجائے اپنے نام سے مشہور کیا یعنی ملتانی” یہ وہ نام تھا جسے اس خطے کے لوگوں نے اپنے لئے منتخب کیا تھا جبکہ باقی ہر دو نام اس خطے سے باہر کے سرحدی حدود سے متصل پنجابیوں اور سندھیوں نے ملتانی زبان بولنے والوں کے لئے رکھا تھا- آج بھی پورے بھارت میں اس زبان کو ملتانی سمجھاجاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام کے ہوسٹ اور اس پوسٹ کے مالک و خالق جناب کاشف بلوچ صاحب جو میرے عزیز ہیں پیارے ہیں جنکے بزرگوں کی انتھک محنت کاوشوں سے ہی ملتان میں پہلی بار باقاعدہ سرائیکی زبان بولنے والوں کی کانفرنس 6 مارچ 1962 کا انعقاد ہوا۔ یہ کانفرنس موجودہ سرائیکی زبان، ادب، ثقافت اور شناخت کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی جس میں پہلی مرتبہ اس زبان کو اجتماعی طور پر متفقہ “سرائیکی” نام دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے قبل اس زبان کو مختلف علاقوں میں ملتانی، جھنگوی، ڈیردی، روہیلڑی،لہندا، ریاستی، میانوالی، ُابھیچڑی ، لموچڑی ، اور سرائیکی سمیت دیگر کئی علاقائی ناموں سے پکارا جاتا تھا۔آج وہ کاشف بلوچ ایک مخصوص پنجابی مائنڈ سیٹ رکھنے والے یوٹیوبرز کے چینل کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کر رہے ہیں۔کیا کوئی اپنی زبان ثقافت کی خدمت متعصب بیانئے کے ہتھیار سے کرسکتا ہے ؟ اس کا جواب ہے نہیں کاشف بلوچ صاحب ۔ شہزادعرفان
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
محبوب تابش دی درگھی نظم، پاݨی ست کھوئیں دا ||سعدیہ شکیل انجم لاشاری